بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے |
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے |
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو |
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے |
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو |
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے |
تجھ سے تجدیدِ وفا پھر سے میں کرتا ہوں ابھی |
کوئی صبحِ نو کہیں سے نکل آئی جیسے |
تیرتی ہیں تری یادیں یوں بدن میں میرے |
کسی خوشبو کی طرح مجھ میں سمائی جیسے |
ہمایوں |
معلومات