بات ایسی تو نہ تھی تم نے بڑھائی جیسے
ایسا کب کرتے ہیں تم نے جو نبھائی جیسے
تم مرے شوق کی تحقیر کئے جاتے ہو
پیار کی ہم سے کراتے ہو گدائی جیسے
تیری ہر بات کا احساس رہا ہے مجھ کو
میری ہر بات کہ لگتی ہو پرائی جیسے
تجھ سے تجدیدِ وفا پھر سے میں کرتا ہوں ابھی
کوئی صبحِ نو کہیں سے نکل آئی جیسے
تیرتی ہیں تری یادیں یوں بدن میں میرے
کسی خوشبو کی طرح مجھ میں سمائی جیسے
ہمایوں

0
61