تجھ کو احساس اب نہیں رہتا
میں ترے پاس اب نہیں رہتا
ہوں اگر دوریاں کبھی تو وہ
صاحبِ یاس اب نہیں رہتا
مجھ سے فرقت کبھی جو غربت تھی
ویسا افلاس اب نہیں رہتا
پہلے رہتا تھا سارے شہر میں جو
میں کہیں خاص اب نہیں رہتا
میں اندھیروں میں روشنی جو تھا
اس کی میں آس اب نہیں رہتا
شہر تیرے میں پہلے راحت تھی
مجھ کو یہ راس اب نہیں رہتا
جیسے ملتا تھا تُو ہمایوں سے
ویسا اخلاص اب نہیں رہتا
ہمایوں

0
19