زندگی میں نہ کبھی کوئی اذیت ہو گی |
اب ترے بعد کسی سے نہ محبت ہو گی |
تجھ سے ملنے کا تقاضا بھی اگر آتا ہے |
اب ملاقات میں ویسی کہاں عجلت ہو گی |
کام اپنے لئے دیکھوں گا میں ایسے ایسے |
یاد کرنے کی تجھے مجھ کو نہ فرصت ہو گی |
تیری شرطوں نے تعلق کو بگاڑا ایسے |
میں ترے پاس رہا بھی تو نہ قربت ہو گی |
میں جو اک بار نکل جاؤں گا دنیا سے تری |
مجھ سے ملنے کی کہاں پھر کوئی صورت ہو گی |
مجھ سے تم ترکِ تعلق کو نہ آساں سمجھو |
تم مجھے چھوڑ کے جاؤ گے تو وحشت ہو گی |
حرمتِ عشق کو پامال کیا اب تم نے |
پھر مری یاد سے بھی تجھ کو عقیدت ہو گی |
مصلحت کے لئے گر ساتھ میں چلنا بھی ہو |
اپنے جذبوں میں نہ پہلی سی وہ شدت ہو گی |
اب ہمایوں سے ترا ملنا نہ ہو پائے گا |
دستیابی کی تجھے پھر نہ سہولت ہو گی |
ہمایوں |
معلومات