| ہو چکا ہے شوق پورا ان سہاروں سے مجھے |
| اب نکلنا ہے محبت کے حصاروں سے مجھے |
| بیچ طوفاں ورد کرنے دے فنا کا تو مجھے |
| خوف آتا ہے محبت کے کناروں سے مجھے |
| رہبری بھی ہونگے کرتے اور لوگوں کے لئے |
| کیا کوئی امید ہو گی ان ستاروں سے مجھے |
| قرب تھا تو زرد پتے بھی مہک دیتے رہے |
| فرق پڑتا ہی نہیں ہے اب بہاروں سے مجھے |
| ترکِ الفت کا فسانہ پڑھ لیا تھا میں نے بھی |
| تو نے بھی سمجھا دیا تھا کچھ اشاروں سے مجھے |
| کچھ ستم ہائے زمانہ بھی تھے میرے حال پر |
| کچھ امیدیں بھی نہیں تھیں اپنے یاروں سے مجھے |
| کام میرے آ نہ سکے وہ تھی سعیِ رائیگاں |
| مشورے جو مل رہے تھے غمگساروں سے مجھے |
| کھول دی ہیں ساری باتیں دشمنوں کے درمیاں |
| ہے کوئی امید باقی رازداروں سے مجھے |
| دوستوں سے لوں نہ اب میں کوئی ترغیبِ سفر |
| بچ کے چلنا ہے جو اب کے خارزاروں سے مجھے |
| تھے مرے دشمن سبھی تو دوستوں کے بھیس میں |
| وہ تجسس ہے نہیں اب پردہ داروں سے مجھے |
| اشکباری کے سحر سے کھائے دھوکے بار بار |
| اب نہیں مجبور ہونا اشکباروں سے مجھے |
| کیوں ہمایوں بن گئی یہ آگ میری ہمسفر |
| اب تپش آتی رہے گی ان شراروں سے مجھے |
| ہمایوں |
معلومات