ہر سمت جو کھوئی ہے نظر کچھ نہیں آتا |
اب تیری محبت کا اثر کچھ نہیں آتا |
اک شورشِ نادیدہ بپا رہتی ہے دل میں |
باہر سے جو دیکھوں تو نظر کچھ نہیں آتا |
ہر روز جو امید کا میں دیپ جلاؤں |
ہر شام اداسی ہے جو گھر کچھ نہیں آتا |
پہلے تو بھرا رہتا تھا یہ وسوسوں سے دل |
اب دل میں بچھڑنے کا بھی ڈر کچھ نہیں آتا |
اب تیرا یہ احساس ہوا برف کی مانند |
اب بجھ چکی ہے آگ شرر کچھ نہیں آتا |
پھر سوچ میں اپنی تُو خساروں کو نہ لانا |
واپس بھی ترے پاس اگر کچھ نہیں آتا |
ہر چیز پہیلی ہے کہ دھوکہ ہے یہاں پر |
اب میری سمجھ میں تو ادھر کچھ نہیں آتا |
اک شور سا رہتا ہے دلائل کا یہاں پر |
اب میری سماعت میں مگر کچھ نہیں آتا |
اس زیست کا ہر لمحہ جو گزرا ہے ہمایوں |
کیوں لوٹ کے اب اس کا ثمر کچھ نہیں آتا |
ہمایوں |
معلومات