بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو
ہو گئے اب وہ جدا باغ لگانے والے
اب کے اس بار خفا میں بھی تو ہو ہی جاؤں
اور یہ دیکھوں کہ ہیں کون منانے والے
تیرے اطوار نے اپنی جگہ مارا ہے مجھے
اب تماشائی بنے سب وہ زمانے والے
ہمایوں

0
47