بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے |
زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے |
کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا |
کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے |
اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو |
ہو گئے اب وہ جدا باغ لگانے والے |
اب کے اس بار خفا میں بھی تو ہو ہی جاؤں |
اور یہ دیکھوں کہ ہیں کون منانے والے |
تیرے اطوار نے اپنی جگہ مارا ہے مجھے |
اب تماشائی بنے سب وہ زمانے والے |
ہمایوں |
معلومات