| تُو آ گیا ہے مرے پاس یہ گماں ہے ابھی |
| یقینِ وصل کو دیکھوں کہ وہ کہاں ہے ابھی |
| ابھی تو زیرِ اثر ہوں فراق میں ہوں ترے |
| میں یہ یقین تو کر لوں کہ تُو یہاں ہے ابھی |
| کی تیرے بعد مقفل جو کر دیا تھا اسے |
| کہ کھولنا ہے مجھے بند یہ مکاں ہے ابھی |
| میں تیرے بعد رہا ہوں ترے خیال میں ہی |
| میں دیکھتا جو رہا خواب وہ جواں ہے ابھی |
| نشانیاں تو بہاروں کے آنے کی ہیں سبھی |
| بہار آ بھی گئی مجھ پہ کیوں خزاں ہے ابھی |
| کہ جشن ہونا تھا آمد پہ تیری چاروں طرف |
| یہ میرے چار طرف کس لئے فغاں ہے ابھی |
| تری انا نے محبت کو پھولنے نہ دیا |
| کہ برگ آئی مگر برگِ ناتواں ہے ابھی |
| مسافتیں بھی ہمایوں رہی ہیں کیسی یہاں |
| کہ تُو چلا تھا جہاں سےکھڑا وہاں ہے ابھی |
| ہمایوں |
معلومات