میرے ہونے سے کوئی فرق اگر نہیں پڑتا
تم مجھے کھونے کا بھی ویسے تجربہ کر لے
میرے اندیشوں کو یقیں کا لبادہ دے کر
میرے بغیر ہی زندگی کا تُو تہیہ کر لے
تیری ضرورت سے میں گر یوں زیادہ ہوں تو
بس کسی اور کے نام مجھے تُو عطیہ کر لے
تم سنبھال لو گزرے وقت کی یادوں کو یوں
سانسیں باقی ہیں جو میری وہ بقیہ کر لے
تیرے تغافل کی یہ آگ تو مجھ کو لے ڈوبی
تو کسی اور کے پیار پہ ہی یوں تکیہ کر لے
ہمایوں

0
2
129
تم کے ساتھ کر لو یا تو کے ساتھ کر لے آتا ہے دوسرا مصرع میں ۔چند اور زباں کی اغلاط ہیں ۔ کوشش خوب کی ہے جاری رکھیں

آپ کے قیمتی وقت کے لئے ممنون ہوں۔

0