| میرے ہونے سے کوئی فرق اگر نہیں پڑتا |
| تم مجھے کھونے کا بھی ویسے تجربہ کر لے |
| میرے اندیشوں کو یقیں کا لبادہ دے کر |
| میرے بغیر ہی زندگی کا تُو تہیہ کر لے |
| تیری ضرورت سے میں گر یوں زیادہ ہوں تو |
| بس کسی اور کے نام مجھے تُو عطیہ کر لے |
| تم سنبھال لو گزرے وقت کی یادوں کو یوں |
| سانسیں باقی ہیں جو میری وہ بقیہ کر لے |
| تیرے تغافل کی یہ آگ تو مجھ کو لے ڈوبی |
| تو کسی اور کے پیار پہ ہی یوں تکیہ کر لے |
| ہمایوں |
معلومات