کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے |
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے |
تیری یادوں نے پکارا ہے اگر دھیرے بھی |
ہم نے سب چھوڑ دیا تیری طرف دوڑ آئے |
تیرا چہرہ ہی نظر آئے ہے ہر سو مجھ کو |
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے |
ہیں نشاں اس پہ بھی دائم جو نہ نکلیں گے کبھی |
شیشہِ دل کو جو اک بار کہیں جوڑ آئے |
رابطہ خود سے مرا اب تو نہ ہونا ہے کبھی |
خود سے رشتہ جو ترے بعد کہ ہم توڑ آئے |
زندگی میں تو کبھی سوچ نہیں سکتا میں |
مری سوچوں میں ترے بعد کوئی موڑ آئے |
وصل تیرا ہی مقدم جو رہا ہے مجھ کو |
بس میسر تری قربت ہمیں ہر طور آئے |
تذکرہ جب بھی رہا ہو گا وفا کا تب ہی |
اک کہانی کہیں ہم بھی تو وہاں چھوڑ آئے |
اے ہمایوں یہ ترا دید کا ہے پاگل پن |
تیری دیوانگی کا ہر سو تو اب شور آئے |
ہمایوں |
معلومات