| ہم نہ اقبال کے احسان چکا پائیں گے |
| چار لفظوں میں کہاں حال بتا پائیں گے |
| یہ ہے تاثیر سخن یا کوئی اعجاز اُس کا |
| میرے جیسے بھی کئی لوگ انا پائیں گے |
| شمع ایسی ہے جلائی کہ دلوں میں اس نے |
| جس کی لو سے سبھی بے نور جلا پائیں گے |
| مردمومن کا تصور جو دیا ہے اُس سے |
| عہدِ رفتہ کی وہی شان جگا پائیں گے |
| ایک انمول جو نسخہ تھا بتایا اس نے |
| من کے بیمار کئی اب بھی شفا پائیں گے |
| شکوہ ہے تو کہیں ملتا ہے جوابِ شکوہ |
| ڈوب کر اس میں کئی لوگ خدا پائیں گے |
| تیرے لفظوں میں ہمایوں ہے کہاں زور اتنا |
| وسعتیں ان کے تصور کی سنا پائیں گے |
| ہمایوں |
معلومات