تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں
ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں
بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر
ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں
موجوں کو سر اٹھانے کی حسرتیں رہیں
جذبوں میں اس طرح سے پنہاں رہا ہوں میں
سوچوں کو موڑ کر بھی منزل نہ دے سکا
منزل کے پاس آ کے بھٹکا رہا ہوں میں
امید کے چمن میں ویرانیاں رہیں
ویرانیوں میں پھر بھی چلتا رہا ہوں میں
ہمایوں

0
71