تحقیرِ محبت ہے اگر ضبط نہیں ہے
عجلت کا محبت سے تو کچھ ربط نہیں ہے
بنیاد میں تیرے ہو نہ اکرام کا عنصر
تو اور کیا ہے یہ اگر خبط نہیں ہے
دل دے چکے ہیں ان کو تو آوارگی میں ہم
انکار پہ راضی تو یہ کمبخت نہیں ہے
یہ موجِ تمنا تو ہے یہ اپنی جگہ پر
آشاؤں کے بھر آنے کا تو بخت نہیں ہے
یہ تیرے سوا لمحے بھی ہیں صدیوں پہ بھاری
تیرے بنا اس جینے میں کچھ ربط نہیں ہے
بس تجھ کو ہی چاہا ہے ہمایوں نے عمر بھر
جو نام مرا تجھ پہ اگر ثبت نہیں ہے
ہمایوں

0
55