چلو کہ پھر سے نیا رازداں بنا لیں ہم
نئی زمین نیا آسماں بنا لیں ہم
کہیں تلاش کریں ہم نئے زمانوں کو
نئے سرے سے کوئی داستاں بنا لیں ہم
تجھے نکال کے اپنے وجود سے ہم بھی
نئے شجر پہ کوئی آشیاں بنا لیں ہم
چلو کہ ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں
کہ بات تیرے بِنا بھی وہاں بنا لیں ہم
کہ ہم نے دیکھ لیئے لفظ بے اثر ہوتے
کہ خامشی کو ہی اپنی زباں بنا لیں ہم
ہجومِ شہر میں خود کو نہ سن سکیں جو ہم
کسی بیاباں میں ہی آستاں بنا لیں ہم
کہ ساری کھڑکیاں تیری طرف ہی کھلتی ہوں
ترے جوار میں ایسا مکاں بنا لیں ہم
میں کیا کروں کہ تو محور ہے میری سوچوں کا
کہاں سے تیرے بنا پھر جہاں بنا لیں ہم
ترے خلاف دلیلوں کو دل نہیں مانے
ترے خلاف یہاں جو بیاں بنا لیں ہم
دو مشورہ بھی ہمیں کام ہو گا کیسا گر
جو نامرادوں کا دارالاماں بنا لیں ہم
سزا ملی ہے ہمایوں تجھے تخیل کی
بہار کو بھی جو دیکھیں خزاں بنا لیں ہم
ہمایوں

0
2