کشتیاں ساری ہی اس پار کہیں چھوڑ آئے
تیرے ادوار سے نکلوں تو کوئی دور آئے
مجھ کو معلوم نہیں ہے کوئی دنیا ترے بن
تو مری سوچ سے نکلے تو کوئی اور آئے
میں نے سوچا بھی نہیں اور یہ ممکن بھی نہیں
مری سوچوں میں ترے بعد کوئی موڑ آئے
دل کی کوشش یہ رہی ہے کہ رہوں تیرے قریب
بس میسر تری فرقت ہمیں ہر طور آئے
تذکرہ جب بھی رہا ہو گا وفاؤں کا کہیں
میرا تیرا یہ تعلق بھی تو زیرِ غور آئے
ہمایوں

0
63