| مجھے تیری باتوں پہ پورا یقیں ہے |
| مگر وسوسہ دل میں رہتا کہیں ہے |
| کسی طور تجھ کو یہ بھولا نہیں ہے |
| مرا دل محبت کا تیری امیں ہے |
| جو اپنی ہی دنیا میں رہتا مگن ہے |
| اسے حال میرا پتا بھی نہیں ہے |
| جو مرجھا گئی ہے یہ خواہش کی کونپل |
| کہ اس کے بنا جاں تو جانِ حزیں ہے |
| کہ ایسی وراثت ملی حسن کو ہے |
| ترے بعد تو ہی ترا جانشیں ہے |
| کہ نازوں میں رکھا ہے اس کو ہمیشہ |
| کہ میرا جو محبوب ہے نازنیں ہے |
| یہ چاہوں کہ تجھ سے کنارہ میں کر لوں |
| مگر تیری حسرت بھی جاتی نہیں ہے |
| یوں تیرے بنا بھی نہیں ہے گزارا |
| کہ احساس تیرا بہت ہی حسیں ہے |
| سجائے وہ اس کو معطر کرے وہ |
| مرے جو مکاں میں اکیلا مکیں ہے |
| یہ گھاؤ کچھ اپنے بھی پالے ہوئے ہیں |
| یہ غم جو ہے تیرا علاوہ ازیں ہے |
| مجھے ساتھ تیرا بھی ملتا نہیں ہے |
| بنا تیرے رہنا بھی مشکل تریں ہے |
| یہ تیری ہمایوں خیالوں کی دنیا |
| فلک تیری حد ہے نہ کوئی زمیں ہے |
| ہمایوں |
معلومات