جمال تیرا کبھی تھا میرے |
خیال مرکز |
کبھی جگاتا تھا میرے اندر |
جنوں کی کونپل حسیں سا جذبہ |
مہک تھی ہر سو محبتوں کی |
جو منتظر تھا یوں میں بھی تیرا |
جو دیکھے تُو بھی وہ راہیں میری |
وہ خوبصورت سوال تیرے |
بھرے بھرے سے جواب میرے |
وہ آہٹوں پر تھے کان تیرے |
وہ چاپ قدموں پہ کان تیرے |
وہ شوقَ فرقت کی شوخیاں بھی |
وہ ذوقَ دیدن وہ خواہشیں بھی |
وہ لمس تیرا جو آگ تھا جب |
وہ ربط میری یہ دھڑکنوں کا |
وہ ربط کو یوں بے ربط کرتا |
کمال تیری وہ قربتیں تھیں |
کہاں ہے دنیا وہ میری دنیا |
تھا اک جہاں جو کہاں گیا ہے |
وہ زندگی بھی تو تھی کہیں پر |
وہ زندگی بھی کہاں گئی اب |
جو رہ گیا ہے خیال سا اب |
کہ عہدِ رفتہ کا آئینہ جو |
مجھے دکھائے وہ تیرا چہرہ |
جو کھو گیا ہو یا چھپ گیا ہو |
کہیں پہ مجھ کو نہ مل رہا ہو |
کمال یہ ہے میں پی گیا وہ |
زہر جو رکھا تھا میرے آگے |
خوشی خوشی سے چکا دیا ہے |
ستم جو میرے حساب کا ہے |
ہمایوں |
معلومات