جمال تیرا کبھی تھا میرے
خیال مرکز
کبھی جگاتا تھا میرے اندر
جنوں کی کونپل حسیں سا جذبہ
مہک تھی ہر سو محبتوں کی
جو منتظر تھا یوں میں بھی تیرا
جو دیکھے تُو بھی وہ راہیں میری
وہ خوبصورت سوال تیرے
بھرے بھرے سے جواب میرے
وہ آہٹوں پر تھے کان تیرے
وہ چاپ قدموں پہ کان تیرے
وہ شوقَ فرقت کی شوخیاں بھی
وہ ذوقَ دیدن وہ خواہشیں بھی
وہ لمس تیرا جو آگ تھا جب
وہ ربط میری یہ دھڑکنوں کا
وہ ربط کو یوں بے ربط کرتا
کمال تیری وہ قربتیں تھیں
کہاں ہے دنیا وہ میری دنیا
تھا اک جہاں جو کہاں گیا ہے
وہ زندگی بھی تو تھی کہیں پر
وہ زندگی بھی کہاں گئی اب
جو رہ گیا ہے خیال سا اب
کہ عہدِ رفتہ کا آئینہ جو
مجھے دکھائے وہ تیرا چہرہ
جو کھو گیا ہو یا چھپ گیا ہو
کہیں پہ مجھ کو نہ مل رہا ہو
کمال یہ ہے میں پی گیا وہ
زہر جو رکھا تھا میرے آگے
خوشی خوشی سے چکا دیا ہے
ستم جو میرے حساب کا ہے
ہمایوں

42