جا رہا ہے کس طرف زندگی کا یہ سفر
منزلوں سے بے خبر راستے بھی بے اثر
کیا عجب ہے سلسلہ اسکی بے ثباتی کا
وقت یہ ہے مختصر آج اِدھر تو کل اُدھر
وقت کے حسابوں کا فلسفہ الگ ہی ہے
لمحے سوچنے میں ہی صدیاں جو گئیں گزر
ایک نقطے کے ہی گرد گھومتی ہے زندگی
صبح کی امید میں جاگنا وہ رات بھر
سوچ تیری کے سبب سب نگر اور ڈگر
شمس رہنا ہے یہاں نہ رہنا ہے کوئی قمر
مٹی کے گروندھے پر بھروسہ کیا کریں
عارضی سا ہے یہاں تیرا گھر یہ میرا گھر
ضبط و خبط کا مزہ کھو چکے ہیں ہم تو اب
خار میں چبھن نہیں پھول بھی ہیں بے اثر
قیمتی وہ لمحے سب کھو گئے کہاں وہ سب
سوچ بھی بھٹک گئی ہو گئی ہے در بدر
ہر ستوں ہر آس کا دور تک پتا نہیں
ہو گئی ہے زندگی بےمزہ اب اس قدر
اے ہمایوں تیری باتیں یہ تیرے فلسفے
حل طلب ہی رہ گئے وہ سبھی اگر مگر
ہمایوں

0
27