سنبھلتے کرتے سنبھل گیا میں
تری محبت میں ڈھل گیا میں
جلائے مجھ کو نہ آگ اب تو
کہ اتنی دفعہ جو جل گیا میں
نہ آنکھ روئے نہ دل جلے اب
کہ دیکھ لو اب بدل گیا میں
کہ بے سکونی میں ہی سکوں ہے
مچلنا تھا جو مچل گیا میں
کہ تجھ میں بسنا ہے لازم اب تو
کہ خود سے اب تو نکل گیا میں
وجود میرا رہا کہاں ہے
کہ جل کے سارا پگھل گیا میں
یوں راستے پر میں آ گیا ہوں
بھٹک گیا میں پھسل گیا میں
جدائیاں بھی ختم ہوئیں اب
کہ تیری یادوں سے مل گیا میں
ہے تیری یادوں کی آبیاری
خزاں کی رت میں بھی کھِل گیا میں
ہے ظلمِ پیہم خیالِ فرقت
وجود اپنے میں ہِل گیا میں
یہ اک جھلک اور بس ختم شد
کہ اتنے میں ہی بہل گیا میں
بھرم ہمایوں رہا نہ کوئی
جو اس محبت میں کھُل گیا میں
ہمایوں

0
18