وہ طلب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے
جاں بلب میری جو تھی وہ اب بھی ہے
بھول سکتا ہوں میں کیسے تجھ کو اب
تو سبب جینے کا تھی وہ اب بھی ہے
تیری شرطوں پر محبت کیا کروں
میری شب تیری جو تھی وہ اب بھی ہے
سوچ پر ہر وقت ہے تیرا بسر
میری تب تُو جان تھی وہ اب بھی ہے
گل کی خوشبو اب بھی مہکاتی مجھے
وہ عجب مستی جو تھی وہ اب بھی ہے
ہمایوں

0
50