یہ فاصلوں کے فلسفے جدائیوں کے رتجگے
یہ زندگی کا حسن ہیں یہ نم رتوں کے قمقمے
یہ فرقتوں کا سوز بھی یہ قربتوں کی لذتیں
یہ قہقہے یہ چشمِ نم ہیں زندگی کے چٹکلے
یہ آنسوؤں کی بارشیں یہ زیرِ لب شرارتیں
ملن کی یہ مسرتیں یہ فرقتوں کے سلسلے
گمان زندگی کا یہ امانِ زندگی ہے یہ
کہ یہ متاعِ زیست ہے یہ زندگی کے وسوسے
یہ دیدہ زیب پیرہن لگے ہیں رنگ جس میں سب
یہ خار کی الگ چبھن گلوں کے ہیں یہ قہقہے
یہ رمز بھی عجب سی ہے کہ ہر قدم یہ حوصلہ
جوان ہے یہ ولولہ کمال ہیں مخمسے
یہ زندگی کی ناؤ بھی ہے ڈولتی چلے ہے جو
کہ مطمئن اسی میں ہیں جو ہم رہے ہیں دل جلے
یہ زندگی گزر گئی مگر سمجھ یہ آ گئی
کہ پھر سے چوم لیں اسے کہیں اگر یہ پھر ملے
کہ غم کی اس کتاب کو چھپایا ہے غلافوں میں
کہ ساتھ لے کے چل دئے جو جب جہاں جدھر چلے
یہ اب کے غم جو آئیں گے تری طرف ہمایوں بس
یوں چوم لینا ان کو تم سنبھالنا ہے ہر سمے
ہمایوں

0
8