کوئی بنیاد رکھتے ہیں کسی تازہ فسانے کی
چلو کر لیں کوئی تدبیر ہم خود کو جلانے کی
کہ میری پرسکوں لہروں میں آ جائے تلاطم پھر
کہ لہروں میں ہو پیدا پھر سے خواہش سر اٹھانے کی
کریں تعمیر ہم مل کر محل کوئی خیالوں کا
کریں تدبیر اس کو وعدوں قسموں سے سجانے کی
ہمیشہ توڑ دے وعدہ وہ قسموں سے مکر جائے
کہ میرا ہمسفر تکلیف مجھکو دے زمانے کی
کہیں سے پھر کوئی بھٹکا ہوا سا تیر آ جائے
سزا ہم کو ملے پھر سے محبت کو نبھانے کی
دوبارہ دل کے آنگن میں کوئی ہلچل سی مچ جائے
ضرورت پھر سے پڑ جائے جو سازِ غم بجانے کی
وفاؤں کو کچلنے کا وطیرہ پھر سے دیکھیں ہم
کہ نوبت پھر سے آ جائے جو خود کو آزمانے کا
حوادث کے حوالے پھر میں خود کو کر کے دیکھوں گا
ستم کرنے کی ہے کتنی سکت ظالم زمانے کی
بدل دے سوچ اپنی تو ہمایوں ورنہ ہے مشکل
تجھے یوں کیا پڑی ہے دکھ زمانے کے کمانے کی
ہمایوں

0
3