تو نے تو ترکِ تعلق کی ہے ٹھانی کب سے
میں نے در اپنا ہمیشہ ہی کھلا رکھا ہے
ٰدل کی تختی پہ ترا نقش بنا رکھا ہے
جانے کیوں تو نے مجھے ایسے بھلا رکھا ہے
جیسے پتھر سا کوئی دل میں سجا رکھا ہے
تیرے اندازِ ستم سے بھی ہے رغبت مجھ کو
تیری ہر چیز سے رکھنی ہے محبت مجھ کو
اب ترے درد کو ہی پال کے رکھنا چاہوں
تیرے رستوں میں کہیں اب تو بھٹکنا چاہوں
تیری قربت میں جو گزرے ہیں وہ لمحے میرے
اب ترے ہجر کی آتش میں سلگنا چاہوں
مجھ کو ہر بات سلیقے کی بری لگتی ہے
میں تری سوچ کے گنجل میں الجھنا چاہوں
ہم نے جو غم کا محبت میں سلیقہ سیکھا
بس اسی طور سے جینے کا طریقہ سیکھا
تو نے جو ترکِ تعلق کی ہے ٹھانی اب کے
ہمایوں

42