| تو نے تو ترکِ تعلق کی ہے ٹھانی کب سے |
| میں نے در اپنا ہمیشہ ہی کھلا رکھا ہے |
| ٰدل کی تختی پہ ترا نقش بنا رکھا ہے |
| جانے کیوں تو نے مجھے ایسے بھلا رکھا ہے |
| جیسے پتھر سا کوئی دل میں سجا رکھا ہے |
| تیرے اندازِ ستم سے بھی ہے رغبت مجھ کو |
| تیری ہر چیز سے رکھنی ہے محبت مجھ کو |
| اب ترے درد کو ہی پال کے رکھنا چاہوں |
| تیرے رستوں میں کہیں اب تو بھٹکنا چاہوں |
| تیری قربت میں جو گزرے ہیں وہ لمحے میرے |
| اب ترے ہجر کی آتش میں سلگنا چاہوں |
| مجھ کو ہر بات سلیقے کی بری لگتی ہے |
| میں تری سوچ کے گنجل میں الجھنا چاہوں |
| ہم نے جو غم کا محبت میں سلیقہ سیکھا |
| بس اسی طور سے جینے کا طریقہ سیکھا |
| تو نے جو ترکِ تعلق کی ہے ٹھانی اب کے |
| ہمایوں |
معلومات