| رازِ دل مجھ کو وہ اب ایسے بتانے آئے |
| جیسے احسان کوئی مجھ کو جتانے آئے |
| وہ بھی کیا وقت تھا آسانیاں تھیں ملنے کی |
| اب ملاقات کے مشکل یہ زمانے آئے |
| وحشتوں نے ہیں جو ڈالے یہ بھیانک ڈیرے |
| دل میں اک بار کوئی جشن منانے آئے |
| ویسے آتا وہ نہیں میری خبر لینے کو |
| آ بھی جائے وہ کسی بھی جو بہانے آئے |
| کتنی ابتر ہے مرے دل کی یہ حالت دیکھے |
| وہ کبھی آئے مرے دل کو سجانے آئے |
| دکھ ہی دکھ میں جو گزرتے ہیں شب و روز اپنے |
| ہم بھی دنیا میں ترا دکھ ہی کمانے آئے |
| پھر کبھی اس نے تکلم نہ کیا تھا مجھ سے |
| وہ جو اک بار مرے دل کو جلانے آئے |
| تیرے انداز سے ظاہر ہے یہ جانا تیرا |
| کیسی امید ہے جو مجھ کو دلانے آئے |
| گر نہیں مجھ سے یوں وابستہ کوئی جذبہ تو |
| ایسے کیوں مجھ کو تم اس بار منانے آئے |
| اے ہمایوں یہ ترا ترکِ تعلق کرنا |
| پھر بھی تو چاہے کہ وہ تجھ کو بلانے آئے |
| ہمایوں |
معلومات