| غم کی آتش میں پل رہا ہوں میں |
| دیکھ مجھ کو کہ جل رہا ہوں میں |
| ہجر کا ہی تو شاخسانہ ہے |
| لحظہ لحظہ پگھل رہا ہوں میں |
| نقش اپنے رہے نہیں اپنے |
| لمحہ لمحہ بدل رہا ہوں میں |
| تری اس قید سے بغاوت ہے |
| خود سے باہر نکل رہا ہوں میں |
| میں تھا پانی تو تھا نشیب مرا |
| اب تو پتھر میں ڈھل رہا ہوں میں |
| میں ترے عشق میں جو گھائل تھا |
| دھیرے دھیرے سنبھل رہا ہوں میں |
| کوئی رستہ نہ کوئی منزل ہے |
| جانے کس طور چل رہا ہوں میں |
| خود سے لڑتے ہی لڑتے گزری ہے |
| محوِ جنگ و جدل رہا ہوں میں |
| کچھ تو تھا ہاتھ میں جو کھویا ہے |
| ہاتھ اپنے جو مل رہا ہوں میں |
| میرے اندر بنا یہ ہے کیسے |
| زہر جو اب اگل رہا ہوں میں |
| دیکھ کر تیری خستہ حالی کو |
| کیوں ہمایوں مچل رہا ہوں میں |
| ہمایوں |
معلومات