| بخت اپنے ہیں کہاں تجھ کو یوں پانے والے |
| زیست کے دکھ ہیں کہ اندر سے جلانے والے |
| کیسے بکھرا ہے خیالوں کا تسلسل میرا |
| کیسے سب چھوڑ گئے ساتھ نبھانے والے |
| اپنے دامن میں ہے کانٹوں کا بسیرا اب تو |
| ہو گئے مجھ سے جدا پھول اگانے والے |
| اب کے یاروں سے خفا میں بھی تو ہو کر بیٹھوں |
| اور یہ دیکھوں کہ ہیں کون منانے والے |
| تیرے اطوار نے اپنی جگہ مارا ہے مجھے |
| اور تماشائی بنے سارے زمانے والے |
| پھر ستم تیرے سے ہے کون جو نالاں ہو گا |
| ہم تو وہ لوگ ہیں دکھ دل پہ سجانے والے |
| یہ ہمایوں کا ترنم تو ہے تیرے ہی سبب |
| ورنہ ہم کون غزل لکھنے لکھانے والے |
| ہمایوں |
معلومات