| تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے |
| اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے |
| اس سوچ میں رہتا تھا تلاطم جو ہمیشہ |
| وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے |
| چلتا رہا ہوں اک ترے جو خواب کے پیچھے |
| وہ خواب ہی تھا اور صلہ کچھ بھی نہیں ہے |
| اکسیر مری زیست کا میں ڈھونڈتا کیوں تھا |
| معلوم تھا یہ مجھ کو جزا کچھ بھی نہیں ہے |
| سب کچھ لٹا چکا ہوں ترے واسطے یوں اب |
| بس مجھ میں ترے بعد رہا کچھ بھی نہیں ہے |
| ہمایوں |
معلومات