| ساتھ تیرے جو میں سفر میں رہا |
| زندگی بھر میں اک پہر میں رہا |
| ہوش میں تو کبھی رہا ہی نہیں |
| جو رہا میں ترے اثر میں رہا |
| جب ترے ساتھ آشنا بھی نہ تھا |
| پھر بھی تیرے ہی میں نگر میں رہا |
| ساتھ تیرا مرا اگر نہ رہا |
| میں ہمیشہ ہی ایک ڈر میں رہا |
| یہ ترے عشق کا ہی معجزہ ہے |
| ہو کے گمنام بھی خبر میں رہا |
| سارے اوقات تیرے نام کئے |
| شام میں تُو مری سحر میں رہا |
| میرے لفظوں پہ تیرا پہرہ رہا |
| زیر میں تو مری زبر میں رہا |
| تُو سمایا کہاں کہاں ہے یہاں |
| تو مرے سب اگر مگر میں رہا |
| میں تو اکثر ترے ہی پاس رہا |
| کون کہتا ہے اپنے گھر میں رہا |
| ہے ہمایوں ترا وجود کہاں |
| تُو کسی اور ہی نگر میں رہا |
| ہمایوں |
معلومات