دور رہ کر بھی مجھ سے سنبھل جائیں گے
آپ کا کیا پتا تھا بدل جائیں گے
وہ جہاں سے مرے جو نکل جائیں گے
سارے سورج عنایت کے ڈھل جائیں گے
یہ نہیں تھا پتا ہجر سنگین ہے
بن ترے ہم جو ایسے مچل جائیں گے
یاد ہم کو ہمیشہ زمانہ رکھے
کر کے ایسے وفا کے عمل جائیں گے
کب تلک جلنا ہے یہ بتا دے مجھے
جلتے جلتے تو ہم سارے جل جائیں گے
ہم وفا کا یہ ساماں اتاریں گے کیوں
ایسا ممکن نہیں ہم یوں ٹل جائیں گے
اپنی تجویزیں جو تم بتاتے ہو اب
طفلِ نو ہم نہیں جو بہل جائیں گے
اب تو صدقہ کروں میں جو شام و سحر
غم تری اس جدائی کے ٹل جائیں گے
دیکھتے ہیں جو مل کے لگائے شجر
کیا یہ دے کے ہمیں کوئی پھل جائیں گے
غم ترے کی تپش ہے جلاتی مجھے
ہم پگھلتے پگھلتے پگھل جائیں گے
دکھ میں تیرے تسلسل رہے گا اگر
تیری چاہت کو یہ تو نگل جائیں گے
ایک تیرا ہمایوں رکے گا سفر
کام سارے جہاں کے تو چل جائیں گے
ہمایوں

0
3