اے زندگی تو مل مجھے ہے کیوں یونہی رکی ہوئی
اگل بھی دے وہ راز بھی وہ بات بھی چھپی ہوئی
میں دیکھ لوں یہ رخ ترا میں بات کو سمجھ تو لوں
کہ جنبشِ نظر تو ہو جو کب سے ہے رکی ہوئی
اے زندگی قریب آ نہ دور جا مجھے دکھا
وہ سوزِ غم کی لذتیں جو وصل کی خوشی ہوئی
میں تیرے پاس آ کے بھی وہ حالِ دل نہ کہہ سکا
وہ میری سوچ رہ گئی یہیں کہیں دبی ہوئی
کمال حسن ہے ترا جو تجھ کو دیکھ لے کوئی
یہاں تو سب ہے خال خال برف سی جمی ہوئی
کہ خالی نظروں سے میں کیوں یوں دیکھتا خلا میں ہوں
کہ سوچ میری رہ گئی یہاں وہاں بٹی ہوئی
کہ ارتقا کی منزلوں میں میرا بھی تو کام ہے
کہ ایک دنیا مجھ میں بھی تو ہے کہیں بسی ہوئی
کہ جتنی دنیا سب کی ہے بڑی ہے وہ جو مجھ میں ہے
کہ مجھ کو نا پتا چلا کہ مجھ میں ہے سجی ہوئی
کہ خواب تیرے تو ہمایوں خواب سے ہی رہ گئے
یہ بحث تو ختم ہوئی کہ کیا کیا کمی ہوئی
ہمایوں

0
12