| تنہائیوں کے ڈر سے تنہا رہا ہوں میں |
| ان چاہتوں کے در سے سہما رہا ہوں میں |
| بنتا رہا ہوں گنجل سوچوں کی راہ پر |
| ان عادتوں میں اپنی سادہ رہا ہوں میں |
| بربادیوں کا میری کچھ بھی رہا سبب |
| خود سے گلے ہی سارے کرتا رہا ہوں میں |
| پھولوں کی خواہشوں میں چلتا گیا جو میں |
| کانٹے ہی زندگی میں چنتا رہا ہوں میں |
| جو رازداں کوئی بھی اپنا نہ بن سکا |
| فریاد اپنی خود ہی سنتا رہا ہوں میں |
| سوچوں کو موڑ کر بھی منزل نہ دے سکا |
| اک یاس کے سفر پر چلتا رہا ہوں میں |
| تھے راستے بہت سے اور منزلیں بھی تھیں |
| تیری وفا پہ آ کے اٹکا رہا ہوں میں |
| تھا قسمتوں کا چکر یا پھر نصیب تھا |
| منزل کے پاس آ کے بھٹکا رہا ہوں میں |
| امید کے چمن میں ویرانیاں رہیں |
| ویرانیوں میں پھر بھی چلتا رہا ہوں میں |
| تم کو لگی ہمایوں ہے چوٹ عشق میں |
| اپنے دکھوں کو سی کر ہنستا رہا ہوں میں |
| ہمایوں |
معلومات