Circle Image

Ar Saghar

@merasaghar

عمیق دکھ ہیں نگار دکھ ہیں
جو سچ کہوں تو ہزار دکھ ہیں
تمہارے حصے خوشی کے موسم
ہمارے حصے میں یار دکھ ہیں
جفا کو دوشی کہوں تو کیسے
وفا کے سر پر سوار دکھ ہیں

0
7
دن کو دن اور رات کو رات سکھانے والا
باغی ہے وہ شعورِ ذات سکھانے والا
اب اُس سے بھی چھین لو حق زندہ رہنے کا
سوئے ہوؤں کو جو ہے ہر بات سکھانے والا
اب یہ جنگ تو ہر صورت ہمیں ہارنی ہو گی
پھانسی چڑھا دیا جائے شہ مات سکھانے والا

0
23
اٹھ کے تیری محفل سے جاتے تو کہاں جاتے
مر نہ جاتے جو ہم اوروں کے آستاں جاتے
ہو اگر عطا ہم کو خاک تیرے قدموں کی
ہم لگا کے ماتھے پر کوئے دشمناں جاتے
تجھ کو یاد کرتے اکثر شبِ قیامت تک
ذکر تیرا ہی کرتے ہم جہاں جہاں جاتے

0
39
داغ سینے سے نکالے نہ گئے
درد اتنے تھے سنبھالے نہ گئے
اشک آنکھوں میں نہیں آئے مگر
کیوں لبوں سے مرے نالے نہ گئے
تا دمِ مرگ رہا شوقِ سفر
اس لئے پاؤں سے چھالے نہ گئے

0
41
داغ سینے سے نکالے نہ گئے
درد اتنے تھے سنبھالے نہ گئے
اشک آتے نہیں آنکھوں میں مگر
ہونٹوں سے کیوں مرے نالے نہ گئے
تا دمِ مرگ رہا شوقِ سفر
اس لئے پاؤں سے چھالے نہ گئے

0
31
حسرتوں کو سینے میں چھپانا پڑتا ہے
ارمانوں کا خون بہانا پڑتا ہے
ہوں جس کی قسمت میں کانٹے زمانے کے
اس کو گلوں سے بھی خود کو بچانا پڑتا ہے
جتنا بھی رہو چاند ستاروں کی محفل میں
بالآخر گھر لوٹ کے آنا پڑتا ہے

0
35
لٹکتی مٹکتی سی آئی ہے گھر سے
چھپاتی ہے منہ کو پڑوسن کے ڈر سے
خبر لے کے آئی نجانے کدھر سے
خدا خود بچائے ہمیں اس کے شر سے
وہ میرے محلے کی عیار نانی
ہے جس کی زباں پر سبھی کی کہانی

0
28
یہ چاند اور تارے تمہارے لئے ہیں
زمیں کے نظارے تمہارے لئے ہیں
ہماری محبت کے انمول موتی
یہ سارے کے سارے تمہارے لئے ہیں
یہ جگنو یہ تتلی یہ پھول اور چمن
خدا نے اتارے تمہارے لئے ہیں

0
45
وہ جو عشق تھا وہ فتور تھا
میری خواہشوں کا قصورتھا
میرے ساتھ تھی میری سادگی
تیرے ساتھ تیرا غرور تھا
میری پیاس جتنا شدید تھی
تیرا لمس اتنا ہی دور تھا

47
ملے گا کیا تجھے سن کر مرے بیتے فسانے کو
تمہی لاعلم ہو شاید خبر ہے سب زمانے کو
ابھی ہم غم رسیدہ ہیں ابھی یہ بات رہنے دو
تمہیں کیسے بتائیں گے بچا ہے کیا بتانے کو
نہ کر تو غیر سے مل کر یوں میرے قتل کی باتیں
ترا بس ہجر کافی ہے مجھے زندہ جلانے کو

0
42
ہم درد کے مارے اب دن رات سسکتے ہیں
ہم روتے نہیں لیکن جذبات سسکتے ہیں
اک شہرِ خموشاں کے ویران کنارے پر
ہم کنج نشینوں کے مزارات سسکتے ہیں
پرسوز گویے کے سر تال کی صورت میں
غمگین غزل کے اب نغمات سسکتے ہیں

37
لے کر نشیلی آنکھیں اپنی جدھر گیا ہے
دل میں سبھی کے ظالم فورا اتر گیا ہے
مدہوش ہو چکے ہیں نظریں ملانے والے
جادو وہ کچھ تو ایسا نظروں سے کر گیا ہے
ہم بھی تو ہو چکے ہیں نظروں سے اس کی گھائل
نظروں کے تیر کا جو دل تک اثر گیا ہے

0
41
سانولی میری نازنیں سن
چین دل کا ہے دل نشیں سن
میری نظموں کے رنگ سارے
تیری صورت کے ترجماں ہیں
میری غزلوں کے قافیے بھی
تیری الفت کا کارواں ہیں

0
37
یوں اپنے دشمن کو جلاتا جاتا ہوں
دکھ سہتا ہوں اور مسکراتا جاتا ہوں
ہے کون مخلص اور منافق ہے کون
میں یار سارے آزماتا جاتا ہوں
جلتے ہیں میرے نام سے جلنے والے
اور جلنے والوں کو جلاتا جاتا ہوں

0
77
جب ترا نام کسی نے لیا چلتے چلتے
تھم گئی پھر وہیں بادِ صبا چلتے چلتے
یہ تو نے مجھ سے کیا کہہ دیا چلتے چلتے
کہ مجھے ہوش نہ اپنا رہا چلتے چلتے
ہم اگر ہوش میں ہوتے تو بتاتے تم کو
حادثہ کب ہوا کیسے ہوا چلتے چلتے

0
71
جب سے تمہارا چہرہ ہماری نظر میں ہے
تب سے یہ دل ہمارا تمہارے اثر میں ہے
تم مانگ کر تو دیکھو کہ سارا نکال دیں
جتنا بھی یار خون ہمارے جگر میں ہے
آواز دے رہے ہو وہ بھی دور سے مگر
کیسے بتاؤں تجھ کو کہ کشتی بھنور میں ہے

0
44
تجھ سے بچھڑے تو جینے کا سبب نہ رہا
خواب بہت تھے مگر کوئی بھی اب نہ رہا
ہم بھی بھولے ہیں اپنی سانسوں کا ہنر
یاد انہیں بھی کوئی وعدہِ شب نہ رہا
آتے ہیں مجھ سے ملنے درِ مے خانہ مگر
آتے وہ تب ہیں کہ میں ہوش میں جب نہ رہا

0
56
ملتا ہے ترے کوچے میں آرام بہت
اس لئے ہم پھرتے ہیں صبح و شام بہت
ہم کو فقط راس آیا عشق زمانے میں
ورنہ تو کرنے کو اور بھی تھے کام بہت
دیکھ تری خاطر ہم نے کیا کچھ نہ سہا
تیرے ہو کر بھی رہے ہم بدنام بہت

0
57
جب بھی خدا تجھ کو سخن سے شناسائی دے گا
پھر ہر سو تجھ کو مرا ہی کلام سنائی دے گا
اپنے خوں سے لفظوں کو سنوارا ہے میں نے
میرا ہر لفظ مری محنت کی گواہی دے گا
تم جتنے بھی ٹکڑے کر ڈالو میرے دل کے
ہر ٹکڑے سے تیرا ہی عکس دکھائی دے گا

0
55
تو نے کچھ بھی تو مجھ سے کہا ہی نہیں
کیسے کہتے ہو میں نے سنا ہی نہیں
کیسے سمجھے گا وہ مست نظریں تری
جام ساقی کا جس نے پیا ہی نہیں

0
41
تیری محفل میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں
اک قصہِ درد سناتے ہیں چلے جاتے ہیں
خوابِ راحت میں میرے بستر میں ترے دکھ
در آتے ہیں خوں رلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
تیری قربت میں گزرے لمحوں کے حسیں پل
جب یاد آتے ہیں ستاتے ہیں چلے جاتے ہیں

0
91
تیری محفل میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں
اک قصہِ درد سناتے ہیں چلے جاتے ہیں
خوابِ راحت میں میرے بستر میں ترے دکھ
در آتے ہیں خوں رلاتے ہیں چلے جاتے ہیں
تیری قربت میں گزرے لمحوں کے حسیں پل
جب یاد آتے ہیں ستاتے ہیں چلے جاتے ہیں

0
60
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائے
اس سے کہہ دو مجھ سے جدا ہو جائے
یا میری محبت کا صلہ دے مجھ کو
یا میری محبت کا خدا ہو جائے
رکھتا ہے وہ مزاج موسم جیسا
جانے پھر کب مجھ سے خفا ہو جائے

0
52
ہوتا ہے خدا جانے کہ ساحل نہیں ہوتا
ہائے وہ کسی بات پہ قائل نہیں ہوتا
ہر شخص کے جینے کا انداز جدا ہے
ہر شخص بھی تو دل سے جاہل نہیں ہوتا
روتے ہیں سدا وائے افسوس ! مرا دل
ہم عشق نہ کرتے تو یوں گھائل نہیں ہوتا

0
49
میں اکثر بھول جاتا ہوں
کسی کو کچھ بتانا ہو
کسی کو غم سنانا ہو
جہاں آنسو چھپانے ہوں
وہیں آنسو بہاتا ہوں
میں اکثر بھول جاتا ہوں

269
آ بچھڑنے سے پہلے گلے لگا لیں
تیری سانسوں کی خوشبو سمیٹوں گا میں
تیرے بھیکے بدن کی مہکار کو
تیرے ماتھے کی خوشبوئے گلنار کو
میں سنبھالوں گا سینے کے اوطاق میں
آج فرصت کے لمحے میسر جو ہیں

0
46
کیا تم نے یہ سنا ہے کہ
محبت خود خداوند ہے
خدا نے اس محبت کو اتارا آسماں سے جب
تو محبت کا تخم لے کر
فلک سے کئی ملک اترے
جسے آدم کے سینے کی محبت خیز دھرتی پر

0
45
دل فسردہ ہے مگر آنکھیں نم نہیں
یہ وہ غم ہے جو قیامت سے کم نہیں
ہجر سے جلتا ہے سینہ دم گھٹتا ہے
کون کہتا ہے ہمیں کوئی غم نہیں
رات ناگن کی طرح ڈستی ہے مجھے
دن کسی مقتل کے منظر سے کم نہیں

0
118
یہ زرد چہرہ چھلکتی آنکھیں
اداس کیوں ہیں چمکتی آنکھیں
کئی دنوں سے یہ جاگتی ہیں
کسی کے غم میں برستی آنکھیں
سنو محبت ہے روگ دل کا
بتا رہی ہیں تڑپتی آنکھیں

0
103
افسوس!
بالآخر جیت گیا میرا رقیب مجھ سے
افسوس! میں کفِ افسوس ملتا ہی رہ گیا
میری محبوب میں نے سوچا تھا
کہ تیرے لمس کی دولت پا کر
اپنی قسمت پہ نازاں ہوں گا

0
42
ہجر ایک اذیت ہے
کہ اس اذیت کا ہر لمحہ
بذات خود اذیت ہے
اگر یہ شاخِ دریا سے
چمٹ جائے تو توبہ ہے
یہ اسی شاخِ دریا کو ہمیشہ اپنے دھارے سے

0
49
لوگ لوگوں کے جب سے خدا ہو گئے
قتل کرنے لگے کیا سے کیا ہو گئے
کتنی الفت سے مل کر تھے رہتے سبھی
رفتہ رفتہ سبھی پھر جدا ہو گئے
یاد آتا ہے گزرا زمانہ مجھے
کیا وہ دن تھے جو ہم سے خطا ہو گئے

0
75
پاس دریا کے سمندر نہیں آنے والا
اب فقیروں میں قلندر نہیں آنے والا
جنگ لازم ہے تو بازو پہ یقیں رکھ ورنہ
تیری خاطر تو سکندر نہیں آنے والا
رب نے دی ہے تجھے دنیا کی امامت غافل
دوسرا کوئی پیمبر نہیں آنے والا

0
169
پھر عید کا دن لوٹ آیا ہے
پھر رونق میلے خوب لگے ہیں
سب بچھڑے لوٹے گھر کی جانب
پھر آنگن سارے خوب سجے ہیں
اک ہم ہیں جن کے گھر میں ہر سو
تنہائی پنکھ پھیلائے بیٹھی

0
48
یہ دنیا ساری اُلکھ نگری
بھانت بھانت کے لوگ
کوئی کسی کا پالنہاری
کوئی کسی کا روگ
سب کی اپنی رین کہانی
سب کا اپنا راگ

0
107
رفتہ رفتہ کھل جاتے ہیں لوگوں کے اعمال یہاں
کیسے مل کر دل کے جذبے کرتے ہیں پامال یہاں
سب کو فکرِ فردا لا حق سب مطلب کے ساتھی یارو
مطلب ہو تو بن جاتے ہیں سب کے سب لجپال یہاں
اب میں سمجھا رب کی قدرت کیونکر ایسا ہوتا ہے
بڑھتا ہے جب ظلم جہاں میں آتے ہیں بھونچال یہاں

61
سنو جاناں!
مجھے اکثر
تمہارے سرد لہجے کی
اذیت مار دیتی ہے

75
میں شاعر ہوں
مگر مجھ سے توقع یہ نہیں رکھنا
کہ تمہارے حسن کی باتیں
لکھوں گا اپنے شعروں میں
تمہاری سر مئی آنکھوں
کا ذکر چھیڑوں گا کتابوں میں

77
میں جس کی محبت کا کبھی تاج و نگیں تھا
جاتے ہوئے اس نے مجھے دیکھا ہی نہیں تھا
اُس موڑ پہ آ کے لُٹا ہے قافلہ میرا
جس موڑ پہ یارو مجھے منزل کا یقیں تھا
وہ مہرباں ہمدرد کسی اور کا تھا لیکن
افسوس! نہیں تھا تو فقط میرا نہیں تھا

0
92
تجھ کو تیرا دکھ مجھ کو میرا دکھ
دونوں کا ہے کتنا گھنیرا دکھ
ہے غریب لاچار کے لئے
دن کا نور شب کا اندھیرا دکھ
سچ کہوں تو سارے جہاں میں ہے
ہر مقام دکھ ہر بسیرا دکھ

0
73
وہ جو عشق تھا وہ فتور تھا
میری خواہشوں کا قصور تھا
لاکھ پہرے تھے اس کی سوچ پر
کچھ تو سوچ کر وہ بھی دور تھا
وہ جو ذکر تھا میری بزم میں
وہ تمہارا میرے حضور تھا

1
111
ہر شب اک نیا ظلم اسی نے ڈھایا مجھ پر
جس کی محبت کا تھا مکمل سایہ مجھ پر
منتیں کیں ترلے بھی کر کے دیکھے میں نے
پھر بھی اس کو ذرا سا ترس نہ آیا مجھ پر
وہ بے وفا تھا سو اس نے جانے سے پہلے
اک بے وفائی کا الزام لگایا مجھ پر

1
82
مدہوش ہے الفت یہ دستور سنا کر
اب ہو گا وصالِ جاناں جاں کو لٹا کر
آغوشِ محبت میں طوفان بپا ہے
اے کشتیِ جاں کچھ تو محتاط رہا کر
وہ عشق کا مارا ہے تم دیکھنا اب وہ
ہم سب کو رلا دے گا روداد سنا کر

0
77
تیرے آنسو بے معنی ہیں یہ تیرا رونا کیا رونا ہے
اُس کا دل ہے پتھر جیسا اِس سے اُس کو کیا ہونا ہے
جس نے تیری سانسیں لے کر تیرا جیون رول دیا ہے
اس کی خاطر تیرا رونا اپنے دیدے کو کھونا ہے
خوش ہے اپنی دنیا میں وہ تجھ سے اُس کو کیا لینا اب
تیری قسمت میں ہیں آنسو تیری قسمت میں رونا ہے

0
70
سکون کا ہے قرار کا ہے
سہانا موسم بہار کا ہے
چمن میں خوشبو مہک رہی ہے
کلی پہ جوبن نکھار کا ہے
مرے چمن کی اجاڑ شاخوں
پہ چھایا مرگ انتظار کا ہے

72
گر تری طرح تجھ کو بھلانے لگیں
عین ممکن ہے ہم کو زمانے لگیں
وحشتیں آ بسیں میرے گھر میں بہت
وسوسے میرے دل کو ڈرانے لگیں
عشق ہو جائے پنچِ محبت تو پھر
سارے عشاق کو تازیانے لگیں

0
82
ستاروں کے نکلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
اندھیری شب کے ڈھلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کبھی بھی ناز مت کرنا ہواؤں کی سواری پر
ہوا کا رخ بدلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
یہاں دائم نہیں رہتے خزانے ہوں یا شاہی ہو
کہ شاہوں کے اجڑنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے

0
221
غمِ ہستی مٹانا چاہتا ہوں
میں بھی اب مسکرانا چاہتا ہوں
وہ بھولا ہے مجھے جس طرح ظالم
میں بھی ویسے بھلانا چاہتا ہوں
اے ہجرِ یار پھر سے آ کہ تم سے
نیا اک دوستانہ چاہتا ہوں

0
83
ترے آنے کا گماں رہتا ہے
دل زیرِ امتحاں رہتا ہے
ترے قدموں کی آہٹ پر اکثر
مرا ہر لمحہ دھیاں رہتا ہے
جب تو نہیں ہوتا تو مجھ میں
کسی ماتم کا سماں رہتا ہے

0
92
تکلیفِ ہجر سے ایسے دم نکلتا ہے
کنگھے سے جیسے زلفوں کا خم نکلتا ہے
دل چل کہیں جا کے روئیں تنہا بیٹھ کر
سنتے ہیں تنہا رونے سے غم نکلتا ہے
اس طرح عمر گزری ہے بد گمانوں میں
اک کو منائیں دوجھا برہم نکلتا ہے

0
99
یہ جو روتی ہوئی ہوا لگتی ہے
کسی بچھڑے کی سدا لگتی ہے
ہم دل کے مریضوں کو ساغر
تیری صورت دوا لگتی ہے

0
56
یہ جو دیوانے ترے در پر کھڑے ہیں
تیری خاطر یہ زمانے سے لڑے ہیں
زندگی ہم تیرے لمحوں کے سفر میں
کتنے ہی شعلوں سے ہنس ہنس کے سڑے ہیں
کچھ ادھورے خوابوں کے ان گِنت ٹکڑے
میری آنکھوں کے کناروں پر پڑے ہیں

0
121
خود جلا کے شمع محبت خود ہی بجھا گیا ہے
کیسا وہ اجنبی تھا جو مجھ کو رلا گیا ہے
کیا حال ہوا ہے صاحب دل کا ذرا سنو تو
کچھ آگ لگی تھی پہلے کچھ وہ لگا گیا ہے
آنے سے جس کے مہکا دل کا اداس آنگن
جب بھی گیا تو خالی آنگن بچا گیا ہے

0
243
چھوڑ کے مجھ کو وہ جانا چاہتا ہے
اس لئے کوئی بہانہ چاہتا ہے
ہم جدا ہو جائیں ان سے زندگی بھر
ایسے تو سارا زمانہ چاہتا ہے
جانتا ہے بچھڑا تو مر جاؤں گا میں
بس یہی تو آ زمانہ چاہتا ہے

0
112
خود بھی ہنستا اور ہنساتا مجھ کو
کوئی تو سینے سے لگاتا مجھ کو
میں اس سے روٹھ کر جو چھپ جاتی کہیں
وہ ڈھونڈتا ، ڈھونڈ کر مناتا مجھ کو
کرتا جو دن بھر لوگوں سے باتیں
ساری وہ رات بھر سناتا مجھ کو

0
76
چھوڑیں رہنے دیں تلخیِ حیات پی لیجیے
پھر کبھی میسر ہی نہ ہو یہ رات پی لیجیے
بٹ رہی ہے دستِ ساقی سے بادہِ نایاب
بھول جائیں گے سارے واقعات پی لیجیے
صبحِ دم سے لے کر تم سَرِ شام پھرتے ہو
تن چکی ہے اب سر پر سرد رات پی لیجیے

1
218
سنو جاناں
تمہارے بن ہمارا دل
کسی کھنڈر کی مانند ہے
نہ ہو جس میں پجاری اب
اسی مندر کی مانند ہے
سنو جاناں

0
135
یہ مانا
تمہارے حسن کے چرچے
چاروں دانگِ عالم ہیں
تمہاری آنکھ ہرنی سی
تمہارے دانت موتی ہیں
تمہاری زلف سے اکثر

190
آنکھیں سرخ چہرے کا رنگ لال رہتا ہے
جب سے میرے دل میں تیرا خیال رہتا ہے
دے گیا وہ اپنے حصے کے دکھ سبھی مجھ کو
سنتے ہیں کہ اب وہ ہر دم نہال رہتا ہے
بجلیوں کے دَل میں ہم بوریا نشینوں کو
آشیاں کے جلنے کا احتمال رہتا ہے

0
94
سب کو تیرے شباب نے مارا
ہم کو تیرے جواب نے مارا
کوچہِ جاناں میں لا کے ہم کو
عشق خانہ خراب نے مارا
دل کو اندر سے کھوکھلا کر کے
ہجر کے اضطراب نے مارا

104
جس کو تم کہتے ہو اپنی انا کا مسئلہ
واللہ وہ ہی تو ہے میری بقا کا مسئلہ
واعظو رہنے دو میری سیہ کاری کو تم
ہے یہ میرا اور میرے خدا کا مسئلہ
مجھ کو ساری عمر درپیش تھے دو مسئلے
اک وفا کا مسئلہ اک جفا کا مسئلہ

102
لوٹ کے یوں تیرے کوچے سے ہم جاتے ہیں
جیسے دلِ بیمار سے رنج و الم جاتے ہیں
اب تو طوفاں کے جیسے میرے آنگن میں غم
دوڑ کے آتے ہیں اور آ کے تھم جاتے ہیں
ساقی ترے مے خانے سے ہم یوں اٹھ جاتے ہیں
جیسے شکتسہ بت خانے سے صنم جاتے ہیں

85
اداس دن ہیں اداس راتیں کدھر کو جائیں کسے بتائیں
کوئی نہ پوچھے جو حال دل کا کسے بتائیں کسے سنائیں
ہماری قسمت میں جو لکھا تھا اسے ہی ہر دن بھگت رہے ہیں
ہمارے مالک نے جو لکھی ہے لکھے کو کیسے بھلا مٹائیں
تمہاری فرقت میں ہر گھڑی ہم سسک رہے ہیں تڑپ رہے ہیں
تمہیں نہ آئے خیال میرا تمہارے بن ہم بھی رہ نہ پائیں

0
175
میرے دل سے جب بھی تیرا جنون نکلے گا
دیکھنا تو میرے لفظوں سے خون نکلے گا
مفلسی نے ڈیرے جب آ لگائے بستی میں
چیختا ہوا ہر گھر سے سکون نکلے گا

0
90
کاش جو پوچھتے ہم سے ہماری آخری خواہش
دار سے پہلے تم سے ملنے کی آرزو کرتے

0
93
ہم ہمیشہ مفلسی کے عذاب سہتے ہیں
کیا بتائیں تجھ کو کیا کیا جناب سہتے ہیں
ہم سہ جائیں ہنس کے دکھ خشک سالی کے اگر
پھر عذاب پانی کے بے حساب سہتے ہیں

0
82
اور اس سے زیادہ کیا بتائیں تم کو
ہم جاں لُٹا دیں جو تم اشارہ کر دو

0
74
مسئلے سارے آنکھوں کے پل میں حل کردوں
جو میں ٹوٹ کے برسوں تو جل تھل کر دوں
خواب تری آنکھوں کے ادھورے سے لگتے ہیں
گر مجھ کو دو اجازت تو میں مکمل کر دوں
چھو لوں تیرے ریشم سے رخساروں کو جو میں
خوشبو سے مہکا دوں تجھ کو صندل کر دوں

0
112
رکھتے ہیں دل میں ہم بھی جذبات بہت
تم پوچھو تو بتائیں یہ بات بہت
ہر کوئی ملا ہے مطلب کے سبب
وابستہ رہے مجھ سے مفادات بہت
میں سوچتا ہوں وہ میرا ہے یا نہیں ا
الجھے ہوئے ہیں میرے خیالات بہت

0
85
سورج کو فخر حاصل دنیا کی روشنی کا
چندا بھی آسماں پر کرنیں دکھا رہا تھا
خاموش تھے نظارے پنچھی بھی تک رہے تھے
شیرِ خدا کا بیٹا کربل کو جا رہا تھا
دینِ خدا مٹانے آیا یزید باطل
نانا کا دین اکیلا سید بچا رہا تھا

0
108
ہر بار دے کر جھوٹے دلاسے مجھ کو
یوں میری ہر بات کو ٹالا اس نے
میں جو کہتا ہوں کہ فدا ہوں تم پر
مطلب پھر بھی غلط نکالا اس نے
یوں لگتا ہے اب کے شاید برا ہو گا
ٹوٹا ہوا دل جو نہ سنبھالا اس نے

0
103
تجھ سے بچھڑنے کا اس دل کو ملال ہے بس
غم ہے الم ہے میں ہوں آشفتہ حال ہے بس
اک وجد طاری ہے ہم پر ہجر کا کہ اب تو
دل محوِ رقص ہے اور غم کا دھمال ہے بس
ہر سو دکھائی دیتے ہیں پہرے دشمنوں کے
الفت کی رہ پہ بچھا نفرت کا جال ہے بس

0
137
مزاجِ موسم بھی یار سا ہے
مچلتی لُو کے غبار سا ہے
ستم ظریفی خزاں کی دیکھو
کہ جس کا چہرہ بہار سا ہے
تھکن فراق و ستم گری سے
رگوں میں اترا بخار سا ہے

0
100
بیٹھ کے تنہا جب سوچو گے
کب تک آنسو روک سکو گے ؟
دیکھ رہے ہو کب سے مجھ کو
چپ بیٹھے ہو۔ کچھ بولو گے ؟
تم کیا جانو درد کسی کا
تم پر ہو گا تو سمجھو گے

0
125
ضمیر بکتے ہیں زردار بکتے ہیں
یہاں پہ جتنے ہیں مردار بکتے ہیں
صحافی بکتے ہیں اخبار بکتے ہیں
ارے یہاں تو قلم کار بکتے ہیں
چلی ہے میرے وطن میں ہوا کہ اب
جناب صاحبِ کردار بکتے ہیں

0
288
مٹا کر دوریاں دل سے مرا اک کام کر دینا
جہاں نفرت کے سائے ہوں محبت عام کر دینا
سحر سے شام تک یارو یہی اب کام اپنا ہے
کہیں بھی خار اگتے ہوں انہیں گلفام کر دینا
تمھیں اب یہ اجازت ہے جہاں تک ہو سکے تم سے
مجھے تم بے وفا کہنا مجھے بد نام کر دینا

110
رو رو کے ہمارا دن گزرے اور شب میں رلائے جاتے ہیں
سن سن کے ہماری آہوں کو وہ ہنستے ہیں اور گاتے ہیں
تم چھوڑ گئے ہو تو اکثر ہم افسردہ سے رہتے ہیں
سنتے ہیں کہ تنہا لوگوں پر غم بھیس بدل کر آتے ہیں
اے پردہ نشیں چل سامنے آ ہم دل کو سنبھالے بیٹھے ہیں
تم تیر چلا ؤ نفرت کے ہم اپنے جگر پر کھاتے ہیں

0
142
اداس آنگن میں تنہا رہنا ، ہماری عادت سی ہو چکی ہے
تمھیں مبارک ہوں پھول شبنم ہماری قسمت ہی سو چکی ہے
کبھی کسی نے جو ملنا چاہا چرا کے نظریں نکل دیے ہم
ہماری خوشیاں تو لٹ چکی تھیں ہماری شہرت بھی کھو چکی ہے
مرے جگر کی اجاڑ دھرتی پہ اگ نہ پائیں خوشی کی فصلیں
خراب قسمت مرے جگر میں جو بیج وحشت کے بو چکی ہے

0
108
میں لٹ چکا تو مجھے پھر وہ بچانے نکلے
میرے غم کا انہیں دکھ ہے وہ بتانے نکلے
وہ تو آئے نہ ہی آنا تھا انہیں میری طرف
ان کی آمد کے سبھی جھوٹے فسانے نکلے
میں نے سمجھا تھا جسے اپنا مسیحا لیکن
میری سانسوں کو وہی یار جلانے نکلے

0
72
محبت میں سہتے زیاں ہم رہے ہیں
تڑپتے رہے نیم جاں ہم رہے ہیں
لٹے ہیں گلوں سے گلوں کے چمن میں
گلوں کے ستم کا نشاں ہم رہے ہیں
چمن میں بہاروں کے جوبن کی خاطر
سبھی کچھ لٹا کر خزاں ہم رہے ہیں

0
104
چلو اب دور چلتے ہیں
جہاں موسم سہانا ہو
جہاں رنگیں نظارے ہوں
جہاں جھلمل ستارے ہوں
جہاں بادل ہی بادل ہوں
جہاں بارش کی جل تھل ہو

0
129
اداس شاخوں سے زرد پتے
زمیں کے دامن پہ گر رہے ہیں
زمیں سے اپنی لپیٹ چادر
یہ سرد موسم بھی جا رہا ہے
وصال رت میں دکھوں کا دامن
پکڑ پکڑ کر میں تھک چکا ہوں

0
155
اب جو اماوس کی شب سارے یار ملیں گے
ہے ممکن کہ سبھی کو سوئے مزار ملیں گے
تم دیکھو شبِ فرقت میں کبھی آ کر مجھ کو
میرے گھر سے تمھیں غم کے انبار ملیں گے
مل جاتے ہیں بہت دنیا میں شناسا لیکن
مخلص ڈھونڈو گے تو فقط دو چار ملیں گے

0
97
حسرَتِ دید اس دل میں ہے
دردِ شدید اس دل میں ہے
عشق اندر یوں کاٹتا ہے
گویا یزید اس دل میں ہے
جتنا نکالا دل سے اُسے
اُس سے مزید اس دل میں ہے

0
105
حسرَتِ دید اس دل میں ہے
دردِ شدید اس دل میں ہے
عشق یوں اندر پھرتا ہے
گویا یزید اس دل میں ہے
جتنا نکالا دل سے اُسے
اُس سے مزید اس دل میں ہے

0
73
برستی بارش میں بہتے آنسو چھپا نہ پایا تو کیا کروں گا
کسی نے پوچھا جو حال تیرا بتا نہ پایا تو کیا کروں گا
ابھی محبت نئی نئی ہے ابھی چڑھا ہے خمار اس پر
نبھا کے وعدے جو کر رہا ہے نبھا نہ پایا تو کیا کروں گا
نہ دیکھوں جب تک تجھے میں جاناں قرار آئے نہ میرے دل کو
بچھڑ کے تم سے تمھاری صورت بھلا نہ پایا تو کیا کروں گا

0
232
چاند دیکھا ستارے دیکھے
خوب صورت نظارے دیکھے
بیچ دریا میں ہم نے اکثر
چھوڑ جاتے سہارے دیکھے
موجِ غم کی لپٹ میں آکر
جلتے ،دریا ، کنارے دیکھے

0
114
رندوں کا تقاضا ہے کہ مے خانے میں گھر ہو
ساقی کا یہ کہنا ہے کہ دستور نہیں یہ
آئے ہو جو موسیٰ کی طرح برق گرانے
ظالم مرا دل ہے جبلِ طور نہیں یہ
یہ مے کا اثر ہے کہ چمکتی ہیں جبینیں
اترا کسی محفل میں کبھی نور نہیں یہ

0
100
چاند دیکھا ستارے دیکھے
خوب ہم نے نظارے دیکھے
بیچ دریا میں ہم نے اکثر
چھوڑ جاتے سہارے دیکھے
ہجر کی آتشِ عناں میں
جلتے دریا کنارے دیکھے

0
68
اف ادب کا اک نگینہ گم ہوا
اردو کا تھاجو خزینہ گم ہوا
تھیں منور جس کے دم سے محفلیں
اُس ہی ہستی کا سفینہ گم ہوا

0
91
تیر ان نظروں سے جو لگے ہیں
سیدھا میرے دل کو لگے ہیں
ہر سو ہر جانب مرے گھر میں
ہجر کے ہی انبوہ لگے ہیں
مجھ کو تھاما دکھوں میں جس نے
اپنوں سے بڑھ کر تو وہ لگے ہیں

0
85
ستم دیکھتے ہیں الم دیکھتے ہیں
کسی کو خبر کیا جو ہم دیکھتے ہیں
محبت کے رستے پہ ہم نے مسلسل
جو کھائے ہیں دل پر ستم دیکھتے ہیں
چھپا کر زمانے کی نظروں سے خود کو
کمالِ اسیرِ عدم دیکھتے ہیں

0
116
زخم اندر سے کاٹتے ہیں اب
تیری فرقت میں جو لگے ہیں
مجھ کو تھاما دکھوں میں جس نے
اپنوں سے بڑھ کر تو وہ لگے ہیں
ہر سو ہر جانب مرے گھر میں
ہجر کے ہی انبوہ لگے ہیں

0
82
یوں خود کو گرفتارِ بلا رکھا ہے
گویا کسی مقتل کو سجا رکھا ہے
گر بس میں ہو تو آگ لگا دوں دل کو
کم بخت نے مدت سے ستا رکھا ہے
اور ہم دل والوں کے مقدر میں یہاں
شبِ فرقت کے سوا کیا رکھا ہے

0
115
کپڑے بدل رکھے ہیں زلفیں بھی سجا رکھی ہیں
تیرے ملنے کی سبھی شرطیں روا رکھی ہیں
تو نہیں ہے تو تیری یادوں کی لہروں پر
کشتیاں الفت کی ہم نے چلا رکھی ہیں
قندیلیں سرِ شام سے روشن ہیں دکھ کی
ویراں آنگن کے کونوں سے لگا رکھی ہیں

0
101
ہم اہلِ تمنا سوئے حرم
دل تھام کے جب بھی نکلیں گے
ہر گام پہ سورج نکلے گا
ہر ظلم کی شبِ ظلمت کا
انجام نرالا کر دیں گے
ہر سمت اجالا کر دیں گے

0
76
سنے اے کاش آ کر کوئی داستاں میری
دعا یہ ہے کہ مرا ساتھ دے زباں میری
نقار خانے میں طوطی کی صوت ہو جیسے
سنی گئی نہ یوں افلاک تک فغاں میری
مزاجِ یار کے انداز جو نرالے ہیں
کرے گا فکر بھلا وہ کہاں کہاں میری

0
94
ہر بات پہ مجھ کو یوں رسوا نہ کیا کر
کچھ اپنی کہا کر کچھ تو میری سنا کر
کچھ درد بتانے کے قابل نہیں ہوتے
چہرے کے تاثر کو مری جان پڑھا کر
بخشی ہے حیاتِ نو سب اہلِ چمن کو
ہم خاک نشینوں نے ہستی کو مٹا کر

0
119
ہوئے خاک برد آشیا ں کیسے کیسے
سہے ہم نے اب تک زیاں کیسے کیسے
کہ دیکھی ہے روتی، جواں بیٹوں کی ماں
گنوا بیٹھی ہے لعل، ماں کیسے کیسے
گذر جو گئی ہے بہاراں چمن سے
جلائے گی گل، اب خزاں کیسے کیسے

0
114
ارادہ کر لیا میں نے فلک سے تارے لاؤں گا
تمھاری مانگ بھر دوں گا تمھیں دلہن بناؤں گا
چمن سے مانگ کر کلیاں میں رکھ دوں تیرے قدموں پر
بہاروں سے چرا کر گل ترے گیسو سجاؤں گا
خدا نے خود تراشا ہے تمھیں مرجان کی صورت
تمہیں موتی، تمہیں ہیرا ،تمہیں نیلم بلاؤں گے

0
94
داغ پھر نئے دل پر ہم سجائے بیٹھے ہیں
کچھ تو عیاں ہیں لیکن کچھ چھپائے بیٹھے ہیں
عشق سے کنارہ کر کے یوں لگتا ہے اب تو
گویا آگ تھی دل میں جو بجھائے بیٹھے ہیں
یہ خلوص کی شدت ہے ، کہ رسوا ہو کر بھی
لوٹ کر تری محفل میں، پھر آئے بیٹھے ہیں

0
103
بات چھوٹی سی تھی کیا سے کیا ہوگئی
بد گمانی بڑھی اور بلا ہو گئی
بے رخی ان کے چہرے پہ جچتی نہیں
اب وہی ان کی قاتل ادا ہو گئی
ایک مدت سے چاہا تھا ہم نے تجھے
چند لمحوں میں چاہت فنا ہو گئی

0
169
لوگ لوگوں کے جب سے خدا ہو گئے
قتل کرنے لگے کیا سے کیا ہو گئے
پہلے رہتے تھے مل کر سبھی ساتھ میں
پھر جو نفرت بڑھی سب جدا ہو گئے
ختم ہوتے گئے زندگی کی طرح
کیا وہ دن تھے جو ہم سے خطا ہو گئے

0
236
ڈال پہ پھر سے پھول کھلے ہیں
بھنورے کلیاں آن ملے ہیں
تیرا وعدہ آنے کا تھا
میرا ساتھ نبھانے کا تھا
اپنا وعدہ پورا کر دو
آؤ میرا جیون بھر دو

0
84
رسمِ وفا اس ادا سے میں نبھاتا گیا
جب جیسے تو نے کہا میں سر کٹاتا گیا
کوئی ٹھکانہ نہیں تھا عشق کی راہ میں
بس منزلِ شوق کی میں خاک اڑاتا گیا
صد بار تیرے تصور نے دیا حوصلہ
ہر بار اپنی جاں میں تجھ پر لٹاتا گیا

0
130
ہے خوشبو کا مخزن پسینہ نبی کا
گلوں نے سنبھالا خزینہ نبی کا
سجے ہیں جہاں میں ہزاروں مدائن
مگر سب سے افضل مدینہ نبی کا
وہی نا خدا ہیں بچائیں گے سب کو
حوادث میں پایا سفینہ نبی کا

0
137
آؤ شہرِ خموشاں چلتے ہیں
ٹھہرو پھر پا بجولاں چلتے ہیں
واپسی کا نہیں ارادہ جب
تو خراماں خراماں چلتے ہیں
عاجزی کام آئے گی شاید
کر کے چاکِ گریباں چلتے ہیں

0
92
تجھ کو پانا پا کر کھونا سیکھ لیا ہے
سچ تو یہ ہے اپنا ہونا سیکھ لیا ہے
تو نے چاہا تیری خاطر ہم نے جاناں
رو کر ہنسنا ہنس کر رونا سیکھ لیا ہے
ڈر تھا کوئی توڑ نہ ڈالے میرے سپنے
اپنے ارماں خود ہی ڈھونا سیکھ لیا ہے

0
153
اداس لوگوں کے پاس جا کر
ملے گا کیا تجھ کو غم سنا کر
ابھی تو پہلی خزاں ہے جاناں
ابھی سے بیٹھے ہو منھ پھلا کر
تمھاری حالت بتا رہی ہے
کہ چوٹ کھائی ہے دل لگا کر

0
120
اک زخم اور دل کا سہ تو سکتے ہیں
تیرے بن ہم بھی رہ تو سکتے ہیں
جانا ہے تجھے لازم یہ جانتے ہیں
کچھ لمحے رکنے کا کہ تو سکتے ہیں
ساحل پہ کھڑی ریت کی دیوار ہیں ہم
موجوں کے طلاطم سے ڈھ تو سکتے ہیں

0
123
وہ جاتے جاتے صبر کی تلقین کر گیا
مجھ میں مری ہی لاش کی تدفین کر گیا
خود تو گیا سکون سے خوشیاں سمیٹ کر
ہستی اجاڑ کر مری غمگین کر گیا
ٹوٹا ہوا ہوں شاخ سے یہ دیکھ کر مجھے
طوفاں کی نذر پھر مرا گلچین کر گیا

0
6
231
یہ پھول چہرہ حسین آنکھیں
ملیں تجھے دل نشین آنکھیں
مجھے تو مجنوں بنا گئی ہیں
دکھا کے جلوہ مَہِین آنکھیں
اٹھا کے پلکیں گھما کے نظریں
نہ ڈال مجھ پر متین آنکھیں

0
277
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
سارے عالم میں پھیلا ترا نور ہے
دل میں موجود ہے مثلِ مسطور ہے
پھر بھی پردے میں رہنا ہی منظور ہے
مالکِ کن فکاں لا مکاں تو ہی تو

1
163
رات بھر ہم جام ٹکراتے رہیں گے
غم بھلا کر دل کو بہلاتے رہیں گے
ساقیا چھوڑو کسی کے جانے کا دکھ
لوگ یونہی آتے اور جاتے رہیں گے
گر پریشاں ہیں تو پی کر غم مٹائیں
آپ کب تک یونہی شرماتے رہیں گے

0
139
تمھیں یاد بہت میں آؤں گا
تری جھیل سے گہری آنکھوں سے
تری تیر کے جیسی پلکوں پر
ترے برف کے جیسے گالوں پر
ترے الجھے بکھرے بالوں پر
جب ٹوٹ کے آنسو بکھرے گا

0
235
آگئے آ گئے تاجدار آ گئے
غم کے ماروں کے دل کا قرار آ گئے
ہو مبارک تمھیں عاصی او پاپی او
رب کی رحمت ہوئی ذی وقار آ گئے
ظلم کی رات میں سب کے دکھ بانٹنے
درد مند آ گئے غم گسار آ گئے

220
بڑھ رہی ہے تشنگی ساقی خدارا جام لاؤ
ہم ابھی پر جوش ہیں پھر سے دوبارہ جام لاؤ
ہوش میں آئے تو لوٹا دیں گے سب کو پائی پائی
کچھ کرو اب تو کہیں سے بھی ادھارا جام لاؤ
رت جواں ہے جا چکی لوٹا خزاں کا پھر سے موسم
گلشنِ غمگین میں آئے بہارا جام لاؤ

0
171
میں لفظ خوشبو ہوں پھولوں میں بسا دیجیے
پھر اپنے آنچل سے خود مجھ کو ہوا دیجیے
ڈر لگتا ہے تنہا اکثر شبِ گوں میں مجھے
خود انگلیاں پھیر بالوں میں سلا دیجیے

0
108
ادھورے خوابوں کا رونا ہے غزل
بحور میں غم کو بونا ہے غزل
غموں کے صابن اور آبِ ہجر سے
جگر کے زخموں کا دھونا ہے غزل
سنے اِسے عاشق تو ملے سکوں
یوں مرضِ الفت کا ٹونا ہے غزل

0
2
126
عشق بن اب کوئی کام چلتا نہیں
اور ملے تو سنبھالے سنبھلتا نہیں
یہ وہ دیپک ہے خونِ جگر سے بھی اب
ہم جلانا بھی چاہیں تو جلتا نہیں
عالمِ ہجر اب کیا بتائیں تجھے
لمبی راتیں ہوئیں دن تو ڈھلتا نہیں

0
129
رب کا محبوب آیا ہے میرا نبی
حق کا پیغام لایا ہے میرا نبی
ہر طرف ان کی آمد کے چرچے ہوئے
پتے پتے نے گایا ہے میرا نبی
سدرۃ المنتہیٰ تک ہے ان کا نشاں
آسماں سے ہو آیا ہے میرا نبی

0
184
اب تو آ بھی جا کہ تجھ کو گلے لگانے کو جی چاہتا ہے
اور پی کر جام ترے ہونٹوں کا بہک جانے کو جی چاہتا ہے
اب تو آبھی جا کہ اک مدت سے دل کو بے چینی ہے بہت
سر رکھ کر جھولی میں غم سارے سنانے کو جی چاہتا ہے

459
درد ہجر تنہائی اور میں
چیخ آہ دو ہائی اور میں
کافی دیر تک تیری مہندی پر
خوب روئے شہنائی اور میں
لڑتے ہیں اکیلے جا کر کبھی
تیری یاد جولائی اور میں

0
201
دیپ جلا کے بیٹھے ہیں
آس لگا کے بیٹھے ہیں
جانے وہ کب رونق بخشیں
گھر کو سجا کے بیٹھے ہیں
اک بے وفا کی خاطر ہم
اشک بہا کے بیٹھے ہیں

0
159
دردوں کو ہجرت کرنے دو
مدت سے رہتے تھے دل میں

0
144
کر کے یاد تجھے اکثر لہو روتے ہیں
نگری نگری کو چہ کو چہ کو بکو روتے ہیں
آلودہ بہ خوں جب ٹپکا مری آنکھوں سے
قطرہ شبنمی ! تو جام و سبو روتے ہیں
اب تو یاد نہیں کچھ حال ہمیں اپنا
ہنستے ہیں کبھو تو یونہی کبھو روتے ہیں

0
102
لوٹا ہے شب میں ہاتھوں پر چھالے لے کر
نکلا جو گھر سے خوابوں کے جالے لے کر
دن ڈھلتے ہی وہ لوٹ کر آئے گا اب
گھر کی طرف پھر ہاتھ منہ کالے لے کر
ٹوٹا کسی کا جوتا کوئی بھوکا ہے
بیٹھے ہیں معصوم آج پھر نالے لے کر

0
133
کل شب مجھے اس نے پکارا کیوں ہے
پھر زہر یہ دل میں اتارا کیوں ہے
منظور تھا اس کو بِچَھڑْنا مجھ سے
تو وقت پھر اتنا گزارا کیوں ہے
ہم نے سنا تھا کارِ منفعت ہے
پھر اس محبت میں خسارا کیوں ہے

0
140
نا آشنائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
یوں بے وفائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
تھی خواہشِ دل و جاں تو وصل کی مگر اب
ان سے جدائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ
رنجور حال اپنا دکھتا ہے اس قدر کہ
اب جگ ہنسائی بڑھتی جاتی ہے توبہ توبہ

0
114
سچ یہ ہمیشہ بڑے بڑوں نے کہا ہے
عشق سے بچنا یہ عشق بری بلا ہے

0
164
شب بھر دل سے غم کا بوجھ اتارا کرنا
پھر ایسا کرنا کچھ روز گزارا کرنا
دل گھبرائے تو لہروں کا کنارے پر سے
تم تنہا گم سم چپ چاپ نظارا کرنا
لازم ہے موجوں سے ربط بنا کر رکھنا
دریا میں جب بھی کشتی کو اتارا کرنا

0
159
یوں تنہا چھوڑنے والے ابھی تو رات باقی تھی
ابھی تو غم بتانے تھے ہماری بات باقی تھی
تمھیں مطلوب تھا ہم سے خفا رہنا جدا رہنا
ہماری ذات کا محور تمھاری ذات باقی تھی
ہمارے ضبط کا بندھن ہمارے ساتھ تھا ورنہ
ہماری نم نگاہوں میں ابھی برسات باقی تھی

0
278
ذرا خواہش تو دیکھو ابنِ آدم کی زمانے میں
اسے اک پر سکوں گھر چاہیے اس قید خانےمیں
نگاہِ مردِ کامل اور کہاں تو عاصی نا فرماں
بہت ہی فرق ہے گدھ اور طوطی کے ترانے میں
ارے یہ دار کر جگ ہے میاں مت دل لگا اپنا
مری سن اب بھلائی ہوگی اس کو بھول جانے میں

153
شام کو سورج ڈھلتا ہو گا
غم کی آگ میں جلتا ہو گا
ناگن زلفیں سجتی ہوں گی
سرمہ آنکھ میں ڈلتا ہو گا
اس نے کہا تھا تنہا جی لیں
دم اب اس کا نکلتا ہوگا

133
اڑانے لگ گئی ہے باد صر صر آشیانے کو
کٹی ہے عمرِرفتہ میری جس گھر کے بنانے کو
نہ کر تو غیر سے مل کر یوں میرے قتل کی باتیں
ترا بس ہجر کافی ہے مجھے زندہ جلانے کو
سرِ رہ حال دل کا کھول کر سب رکھ دیا میں نے
نجانے کب کوئی آ کر سنے میرے فسانے کو

0
87
نشیلی سرد راتوں میں صنم جب پاس ہوتا ہے
محبت کا تعلق کا تبھی احساس ہوتا ہے
مجھے سوچے مجھے چاہے مجھے اپنا بنا لے وہ
بنا اس کی محبت کے جگر بھی یاس ہوتا ہے
سنا ہے میں نے غیروں کی وہ محفل میں بھی جاتا ہے
کہیں مجھ سے نہ چھن جائے یہی وسواس ہوتا ہے

0
180
ملنے کا اس نے مجھ سے جو وعدہ نہیں کیا
میں نے بھی بار بار تقاضا نہیں کیا
جب سے گیا ہے وہ مجھے بے آس چھوڑ کر
جینے کا تب سے میں نے ارادہ نہیں کیا
مانگی نہیں ہے بھیک کسی کم نگاہ سے
کشکول توڑ ڈالا کشادہ نہیں کیا

136
اکیلے میں تم جو گا رہے ہو
یہ گیت کس کو سنا رہے ہو
یہ بھیگی آنکھیں یہ زرد چہرہ
ارے کیوں مجھ سے چھپا رہے ہو
تمھیں تو خوشیوں سے ہی شغف تھا
یہ اشک اب کیوں بہا رہے ہو

0
151
خواب آنکھوں سے نکالے نہیں جاتے
درد اب ہم سے سنبھالے نہیں جاتے
بڑھے ہیں غیر سے جب ان کے مراسم
مجھ کو تو اب جاں کے لالے نہیں جاتے
وہ اگر میرا ہے تو پھر کہے مجھ سے
ورنہ ایسے مرے نالے نہیں جاتے

142
غم دیدہ فضاؤں سے لپٹ کر رویا
پھولوں کی قباؤں سے لپٹ کر رویا
جس در سے ملا مجھے رونے کا ہنر
اس در کی ہواؤں سے لپٹ کر رویا
پھر بعد ترے جب کبھی ساون برسا
گھنگھور گھٹاؤں سے لپٹ کر رویا

2
157
دل سے جو نکلی ہے صدا سن لو
داستانِ غمِ وفا سن لو
تہمتِ عشق جب لگی گل پر
خار سے غنچوں نے کہا سن لو
سنتے ہو بے کسوں کی یا مالک
ہم اسیروں کی بھی دعا سن لو

130
پھر شب کے تارے سو چکے ہیں
سارے کے سارے سو چکے ہیں
اب تو ہر سو زمامِ شب ہے
دن کے نظارے سو چکے ہیں
آتش رخسار سے لو برسی
دل کے نقارے سو چکے ہیں

0
141
آرزوِ سحر میں رات بتائی میں نے
شمع کئی بار جلا کے بجھائی میں نے
جب بھی خیالِ رقیباں نے کیا بے کل مجھے
دشتِ تخیل کو آواز لگائی میں نے
لوٹی پریشاں سی میری صدا کی بازگشت
اپنی کہانی یو ں خود کو ہی سنائی میں نے

119
وہ یاد آیا بے وفا دل رو پڑا
آنسو بہے بن کے گھٹا دل رو پڑا
رب سے اسے مانگا دعا میں ہر گھڑی
دل سے ہے نکلی جب دعا دل رو پڑا
بے چین جیون ہے مرا اب کیا کروں
جب سے ہوئے زخمی جدا دل رو پڑا

0
258
ہم درد کے مارے ہیں دن رات سسکتے ہیں
ہم روتے نہیں لیکن جذبات سسکتے ہیں
اک شہرِ خموشاں کے ویران کنارے پر
ہم کنج نشینوں کے مزارات سسکتے ہیں
ہم لوگ نرالے ہیں خاموش ہمارے دکھ
ہم خود تو نہیں کہتے یہ نغمات سسکتے ہیں

0
165
پکڑ کر ہاتھ میرا تو مجھے اتنا بتا دینا
کبھی جو ہم نہ مل پائیں بتادو پھر کرو گے کیا
مجھے بھی روک سکتا ہے زمانہ پاس آنے سے
تمھیں بھی لوگ روکیں گے بتا دو پھر رکو گے کیا
محبت نے ستایا ہے ہمیشہ خوب بڑھ چڑھ کر
یہ بازی جاں کی بازی ہے بتا دو پھر ہرو گے کیا

0
198
جو جام ساقی تیری محفل میں چل رہے ہیں
یوں نشہ ہم میں اور ہم نشے میں ڈھل رہے ہیں
پی پی کے ہو چکے ہیں مخمور کافی حد تک
دل میں چھپے تھے کب سے ارماں نکل رہے ہیں
تھامو خدارا ہم کو اے رندو ہوش والو
ہم پہلے لڑ کھڑائے اب تو پھسل رہے ہیں

2
204
ہم خونِ جگر بہا کے روئے
خط آخری بھی جلا کے روئے
قاصد نے خبر دی جب بھی آ کر
قاصد کو گلے لگا کے روئے
جب بھی کوئی ہم سے ملنے آیا
ہم اپنی کتھا سنا کے روئے

0
130
لوٹ آتے ہیں سبھی درد و غم شام کے بعد
ٹوٹ جاتے ہیں یونہی پھر سے ہم شام کے بعد
بے سبب شام سے پہلے وہ کیوں چھوڑ گیا
اب یہی سوچ کے گھٹتا ہے دم شام کے بعد
رتجگے جب سے مری آنکھوں میں آ بسے ہیں
تب سے رہتی ہے مری آنکھ نم شام کے بعد

226
ترا عشق تھا کوئی حرز جاں مرے جسم و جاں میں اتر گیا
کوئی موج تھی جو ٹھہر گئی کوئی طوفاں تھا جو گذر گیا
تھا وہ ذوق پھر یا خمار تھا یونہی سر پہ میرے سوار تھا
میں جو رتجگوں سے ملا نہ تھا ترے عشق سے ہی بکھر گیا
ترے ساتھ جینا محال تھا ترے بعد مرنا کمال تھا
تھی عجیب حالتِ زندگی کبھی جی اٹھا کبھی مر گیا

2
164
خواہشِ دل کو دبا رکھا ہے
غم کو سینے میں چھپا رکھا ہے
لاج رکھنا مری اے حافظِ کل
طوفاں میں لا کے دیا رکھا ہے
تم جسے کہتے تھے مونس ہجراں
اس نے غیروں سے نبھا رکھا ہے

113
زمانے اب وہ پرانے نہیں رہے
محبتوں کے ترانے نہیں رہے
کسے سنائیں گے اب داستان غم
کہ ملنے کے تو بہانے نہیں رہے
کدورتوں کو مٹا دے دلوں سے جو
محبتوں میں نشانے نہیں رہے

0
139
ہم محبت کا خسارا نہیں کرتے
وہ سنے ناں تو اشارا نہیں کرتے
روئیں گے سر کو سرہانے سے لگا کر
اب جو ملنا بھی گوارا نہیں کرتے
چھوڑ کر جائے تو پھر مت اسے روکو
جانے والوں کو پکارا نہیں کرتے

0
198
انا سے پہلو بچا کے چلنا
سبھی کو اپنا بنا کے چلنا
نہ تم کو ناکامی ڈھونڈھ پائے
نشان سارے مٹا کے چلنا
خراج مانگیں خزائیں تم سے
تو پھول شبنم لٹا کے چلنا

0
137
جب سے دل کا سپنا ٹوٹا
روئے دھوئے سینہ کوٹا
غم ہی غم ہیں ہر سو اب تو
سکھ کا آنگن ہم سے چھوٹا
نت وفا کی قسمیں دے کر
مجھ کو ہر دم تم نے لوٹا

0
191
غم کی فریاد بھی مہجور ہوا کرتی ہے
شب کے مارے ہوئے لوگوں سے ملا کرتی ہے
اس نے چھوڑا تو مرا چین بھی روٹھا مجھ سے
اب تو وحشت ہی مرے گھر میں رہا کرتی ہے
تم تو سنتے بھی نہیں ہو مرا افسانہ غم
ورنہ دکھ درد تو خلقت بھی سنا کرتی ہے

0
121
لمس خوشبو سے ہے ملا ابھی
تازہ پھول کوئی کھلا ابھی
میری تشنگی ہے عروج پر
بس تو جام نینن پلا ابھی
اب نہ چھیڑ ساقی تو ساز دل
میری پیاس ہی تو بجھا ابھی

0
143
کیا تھا دل تمھی نے جو شکستہ بھول بیٹھے ہو
بڑے ظالم ہو دلبر من خُجَستہ بھول بیٹھے ہو
دکھا منزل کا رستہ تم وفا کی بات کرتے تھے
بتا دو پھر بھلا کیسے وہ رستہ بھول بیٹھے ہو
ہوا تھا ساتھ جینے اور وعدہ ساتھ مرنے کا
لکھا تھا جن کتابوں میں وہ بستہ بھول بیٹھے ہو

0
314
درد بڑھ کر عیاں نہ ہو جائے
فیصلہ پھر یہاں نہ ہو جائے
وہ جو کہنے لگا ہے اپنا مجھے
مجھ سے پھر بدگماں نہ ہو جائے
سی لیے لب مگر نگاہوں سے
جو چھپایا بیاں نہ ہو جائے

0
206