اداس آنگن میں تنہا رہنا ، ہماری عادت سی ہو چکی ہے
تمھیں مبارک ہوں پھول شبنم ہماری قسمت ہی سو چکی ہے
کبھی کسی نے جو ملنا چاہا چرا کے نظریں نکل دیے ہم
ہماری خوشیاں تو لٹ چکی تھیں ہماری شہرت بھی کھو چکی ہے
مرے جگر کی اجاڑ دھرتی پہ اگ نہ پائیں خوشی کی فصلیں
خراب قسمت مرے جگر میں جو بیج وحشت کے بو چکی ہے
ملے جو فرصت تو آکے دیکھو کبھی ہماری سیہ نصیبی
ہماری حالت پہ یار ظالم سزا بھی کثرت سے رو چکی ہے
مری ہی آنکھوں سے نیند لے کر کہاں گئی ہے یہ رات ساغر
یہ رات میری چرا کے نیندیں بڑی ہی عجلت سے ڈھو چکی ہے

0
98