تکلیفِ ہجر سے ایسے دم نکلتا ہے
کنگھے سے جیسے زلفوں کا خم نکلتا ہے
دل چل کہیں جا کے روئیں تنہا بیٹھ کر
سنتے ہیں تنہا رونے سے غم نکلتا ہے
اس طرح عمر گزری ہے بد گمانوں میں
اک کو منائیں دوجھا برہم نکلتا ہے
اب میری آنکھ سے آنسو یوں نکلتے ہیں
جس طرح پھوٹ کر کوئی بم نکلتا ہے
آنکھوں میں ہے تکبر دل میں وفا نہیں
دنیا میں تجھ سا پتھر دل کم نکلتا ہے

0
87