یوں خود کو گرفتارِ بلا رکھا ہے
گویا کسی مقتل کو سجا رکھا ہے
گر بس میں ہو تو آگ لگا دوں دل کو
کم بخت نے مدت سے ستا رکھا ہے
اور ہم دل والوں کے مقدر میں یہاں
دردِ فرقت کے سوا کیا رکھا ہے
شاید کوئی گل اٹھا ہے چمن سے
پھولوں نے جبھی ہنگام اٹھا رکھا ہے
تو دیکھ کہ تیری فرقت میں ہم نے
مدت سے کیا حال بنا رکھا ہے
چھوڑا ہے تو نے جب اپنی خوشی سے
پھر ہم پہ کیوں الزام لگا رکھا ہے
یہ کیا کم داد ہے کہ ساغر ہم نے
قاتل کو ابھی دل میں چھپا رکھا ہے

0
10