حسرتوں کو سینے میں چھپانا پڑتا ہے
ارمانوں کا خون بہانا پڑتا ہے
ہوں جس کی قسمت میں کانٹے زمانے کے
اس کو گلوں سے بھی خود کو بچانا پڑتا ہے
جتنا بھی رہو چاند ستاروں کی محفل میں
بالآخر گھر لوٹ کے آنا پڑتا ہے
کوئی دیتا نہیں لا کے روٹی بچوں کو
میرے یار یہاں تو کمانا پڑتا ہے
رنجشیں اچھی نہیں صدیوں کی رفاقت میں
دل نہ بھی چاہے رشتہ نبھانا پڑتا ہے
اندیشہ ہو جب دامن کے لٹنے کا
تب اپنے دامن کو بچانا پڑتا ہے
عشق نہیں آساں میرے ساغر جہاں میں
عشق میں اپنا سر بھی کٹانا پڑتا ہے

0
50