ہر بات پہ مجھ کو یوں رسوا نہ کیا کر |
کچھ اپنی کہا کر کچھ میری بھی سنا کر |
کچھ درد بتانے کے قابل نہیں ہوتے |
چہرے کے تاثر کو مری جان پڑھا کر |
آخر کب تک یوں درِ پردہ رہو گے تم |
آؤ مرے دل سے کھیلو سامنے آ کر |
بخشی ہے حیاتِ نو سب اہلِ چمن کو |
ہم خاک نشینوں نے ہستی کو مٹا کر |
سہمے ہوئے پیڑوں کو تنہائی کا ڈر ہے |
اڑ جائیں گے پنچھی جب کچھ دیر میں آ کر |
ہم دشت نوردوں کو افلاک کی حد تک |
لے جائے گی بادِ صر اک روز اڑا کر |
پو پھٹتے ہی کھلاتی ہو جو یادوں کے گل |
مجھ پر نہ تو احسان یہ اے بادِ صبا کر |
قسمت میں نہیں تھا ورنہ ہاتھوں پہ ساغر |
دیکھا ہے کئی بار لکیروں کو جگا کر |
معلومات