ہر بات پہ مجھ کو یوں رسوا نہ کیا کر
کچھ اپنی کہا کر کچھ میری بھی سنا کر
کچھ درد بتانے کے قابل نہیں ہوتے
چہرے کے تاثر کو مری جان پڑھا کر
آخر کب تک یوں درِ پردہ رہو گے تم
آؤ مرے دل سے کھیلو سامنے آ کر
بخشی ہے حیاتِ نو سب اہلِ چمن کو
ہم خاک نشینوں نے ہستی کو مٹا کر
سہمے ہوئے پیڑوں کو تنہائی کا ڈر ہے
اڑ جائیں گے پنچھی جب کچھ دیر میں آ کر
ہم دشت نوردوں کو افلاک کی حد تک
لے جائے گی بادِ صر اک روز اڑا کر
پو پھٹتے ہی کھلاتی ہو جو یادوں کے گل
مجھ پر نہ تو احسان یہ اے بادِ صبا کر
قسمت میں نہیں تھا ورنہ ہاتھوں پہ ساغر
دیکھا ہے کئی بار لکیروں کو جگا کر

0
52