ہر بات پہ مجھ کو یوں رسوا نہ کیا کر |
کچھ اپنی کہا کر کچھ تو میری سنا کر |
کچھ درد بتانے کے قابل نہیں ہوتے |
چہرے کے تاثر کو مری جان پڑھا کر |
بخشی ہے حیاتِ نو سب اہلِ چمن کو |
ہم خاک نشینوں نے ہستی کو مٹا کر |
سہمے ہوئے پیڑوں کو تنہائی کا ڈر ہے |
اڑ جائیں گے پنچھی جب کچھ دیر میں آ کر |
ہم درد کے ماروں کو افلاک کی حد تک |
لے جائے گی بادِ تند اک روز اڑا کر |
ہر وقت کی غفلت بھی اچھی نہیں ظالم |
فریادِ اسیراں کو کبھی سن بھی لیا کر |
قسمت میں نہیں تھا ورنہ ہاتھوں پہ ساغر |
دیکھا ہے کئی بار لکیروں کو جگا کر |
معلومات