ہر بات پہ مجھ کو یوں رسوا نہ کیا کر
کچھ اپنی کہا کر کچھ تو میری سنا کر
کچھ درد بتانے کے قابل نہیں ہوتے
چہرے کے تاثر کو مری جان پڑھا کر
بخشی ہے حیاتِ نو سب اہلِ چمن کو
ہم خاک نشینوں نے ہستی کو مٹا کر
سہمے ہوئے پیڑوں کو تنہائی کا ڈر ہے
اڑ جائیں گے پنچھی جب کچھ دیر میں آ کر
ہم درد کے ماروں کو افلاک کی حد تک
لے جائے گی بادِ تند اک روز اڑا کر
ہر وقت کی غفلت بھی اچھی نہیں ظالم
فریادِ اسیراں کو کبھی سن بھی لیا کر
قسمت میں نہیں تھا ورنہ ہاتھوں پہ ساغر
دیکھا ہے کئی بار لکیروں کو جگا کر

0
156