رات کے اس لمحے |
اداس کمرے کے ویران بستر پر |
نیند سے عاری |
تسلسل سے تجھے سوچ رہا ہوں |
جانے کیوں یہ وقت مجھ پر گراں ہے بہت |
اپنے چاروں طرف نیند کے مزے لیتے لوگ |
میری بے بسی کا منہ چڑاتا بستر |
میری سگریٹ کی خالی ڈبی |
اور ادھ جلے سگریٹ سے بھرا ایش ٹرے |
سب اپنی اپنی جگہ پر خاموش ہیں |
مگر میرے اندر تیری یاد چیختی ہے |
جانے کب تک |
یہ بوجھ میرے کاندھوں پہ رہے گا |
کئی بار کہا ہے خود سے |
سمجھایا بھی ہے لیکن |
دماغ الجھے ہوئے دھاگوں کی گچھی کی مانند |
اور الجھ جاتا ہے |
آنکھوں میں سرخ ڈوریاں |
نیند کی دیوی سے اکثر گلہ کرتی ہیں |
مگر جواب ندارد |
خیر تمہیں تو نیند ہوگی |
اور اس وقت |
تمہاری سوچوں میں |
دستک دینا مناسب نہیں |
معلومات