سنے اے کاش آ کر کوئی داستاں میری
دعا یہ ہے کہ مرا ساتھ دے زباں میری
نقار خانے میں طوطی کی صوت ہو جیسے
سنی گئی نہ یوں افلاک تک فغاں میری
مزاجِ یار کے انداز جو نرالے ہیں
کرے گا فکر بھلا وہ کہاں کہاں میری
رہا ہوں کوسوں دور اصل مقصدَ اولیں سے
کٹی یونہی عمرِ رفتہ رائیگاں میری
نحیف جاں دامِ گہ میں ہے دم آخری ہے
ہے کچھ خبر تجھ کو میرے پاسباں میری
پنپ رہے ہیں ہزاروں جو وسوسے ساغر
خدا کرے نہ ہو اب طبعِ بدگماں میری

0
111