بجھتے چراغِ شب کی کہانی کہاں سنے گا |
سن بھی لے تو لو کی زبانی کہاں سنے گا |
جب وہ سنتا ہی نہیں میری چپ کی صدا |
پھر بہتے دریا کی روانی کہاں سنے گا |
جس دل میں نہیں مظلومِ کربل کا دکھ |
وہ مجلس میں نوحہ خوانی کہاں سنے گا |
ہر کوئی لئے پھرتا ہے اپنا دکھڑا یہاں |
کوئی میرے دکھ کی کہانی کہاں سنے گا |
آئے روز جسے میسر ہوں چہرے نئے |
پھر وہ میری باتیں پرانی کہاں سنے گا |
گر ہو ممکن تو کشتی سجا کے رکھنا |
ورنہ یہ منہ زور یہ پانی کہاں سنے گا |
منکر ہے جو وجودِ محبت سے ساغر |
میں اس کو لا بھی دوں نشانی کہاں سنے گا |
معلومات