ہوئے خاک برد آشیا ں کیسے کیسے |
سہے ہم نے اب تک زیاں کیسے کیسے |
کہ دیکھی ہے روتی، جواں بیٹوں کی ماں |
گنوا بیٹھی ہے لعل، ماں کیسے کیسے |
گذر جو گئی ہے بہاراں چمن سے |
جلائے گی گل، اب خزاں کیسے کیسے |
مکیں بننے آئے، مسافر ہو بیٹھے |
سجے تھے خرد میں گماں کیسے کیسے |
جو مغرور تھے سر، گرے وہ ہمیشہ |
جھکے ہیں یہاں آسماں کیسے کیسے |
اثر اس کو ہوتا، یہ سن کر یقینا |
کہ کرتا رہا دل فغاں کیسے کیسے |
فقط گھر کی جانب پہنچنے کی خاطر |
بدلتا رہا میں، جہاں کیسے کیسے |
تغیر بپا ہے زمانے میں ساغر |
چمن سے چلے باغباں کیسے کیسے |
معلومات