| میں شاعر ہوں |
| مگر مجھ سے توقع یہ نہیں رکھنا |
| کہ تمہارے حسن کی باتیں |
| لکھوں گا اپنے شعروں میں |
| تمہاری سر مئی آنکھوں |
| کا ذکر چھیڑوں گا کتابوں میں |
| تمہاری شرم حیا کا بھی |
| کبھی نہ نام لوں گا میں |
| تمہارے سرخ لبوں کو تو |
| میں یکسر بھول جاؤں گا |
| تمہارے نین نشیلے ہیں |
| مگر مجھ کو نہیں لکھنا |
| تمہاری اس نزاکت کو |
| شرافت کو نَفاسَت،کو |
| نہیں لکھنا نہیں لکھنا نہیں لکھنا |
| تمہاری زلف کے خم بھی |
| مجھے بالکل نہیں لکھنے |
| تمہاری مسکراہٹ جو |
| ہزاروں گل کھلاتی ہے |
| کسی بے چین دھڑکن پہ |
| سکونّ قلب لاتی ہے |
| مگر یہ کیوں لکھوں گا میں ؟ |
| تمہارے ایک اشارے پہ |
| ہزاروں جان دیتے ہیں |
| چلو یہاں تک تو ہم بھی مان لیتے ہیں |
| مگر پھر بھی |
| مجھے لکھنا نہیں بالکل |
| یہ ساری رام کہانی بھی |
| بجا ہوگی مگر جاناں |
| میں شاعر ہوں |
| سوا اس کے مجھے کچھ اور |
| کرنا بھی نہیں آتا |
| اور لکھنا بھی نہیں آتا |
| چلو اک کام کرتا ہوں |
| میں تخیل کے سمندر سے |
| چرا لاتا ہوں لاکھوں حرف |
| کہ جن حرفوں سے خوشبوؤں کی لپیٹیں ہی لپیٹیں ہوں |
| پھر اُن حرفوں کو کاغذ پر |
| گل و گلفام کرتا ہوں |
| میں اپنی یہ پہلی نظم تمہارے نام کرتا ہوں |
معلومات