ستاروں کے نکلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
اندھیری شب کے ڈھلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کبھی بھی ناز مت کرنا ہواؤں کی سواری پر
ہوا کا رخ بدلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
یہاں دائم نہیں رہتے خزانے ہوں یا شاہی ہو
کہ شاہوں کے اجڑنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
تجھے جو مان ہے خود پر ذرا یہ یاد رکھ ظالم
حسیں جوبن کو ڈھلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
اندھیری رات کا منظر بھلے جتنا بھی گہرا ہو
اجالوں کے ابھرنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
کبھی وہ مہرباں مجھ پر کبھی وہ اجنبی سا ہے
اسے لہجہ بدلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے
محبت دھات ہے ساغر اگر ہو آنچ الفت کی
یہی چاندی پگھلنے میں ذرا سی دیر لگتی ہے

0
179