تم کیسے جانو گے اجاڑ راتوں میں تنہائی کا دکھ |
تمہیں کیا خبر کہ بھوک سے بلبلاتا ہوا بچہ |
جب اپنی لاچار ماں کی نظروں میں جھانکتا ہے |
تو ماں کے سینے سے نکلتی ہوئی ہوک |
پروردگار عالم کا عرش ہلا دیتی ہے |
تم کیسے جانو گے جب کسی یتیم بچے کے سامنے |
دوڑ کر کوئی معصوم اپنے بابا کے سینے سے لپٹتا ہے |
اس وقت وہ یتیم کس کر ب کی حالت سے گزرتا ہے |
تم کیا جانو کہ جب ایک بیمار وقت آخر |
لاچارگی میں آسماں کی طرف دیکھتا ہے |
موت اس کی نظروں کے سامنے رقصِ کناں ہوتی ہے |
اور وہ دنیا بھر کے نظاروں پر ایک نظر ڈالے |
چند لمحے زندگی کے خدا سے مانگتا ہے |
گڑ گڑاتا ہے |
تم کیا جانو جب ایک مجاہد وطن سے دور |
کسی انجان گھاٹی میں دشمن کے تیر کھا کر |
گر جاتا ہے اور ایسے میں اس کے سینے میں |
اپنے عزیزوں کی یاد شدت سے |
طوفاں بن کر امڈ آتی ہے |
مگر اس وقت وہ بے کسی کے عالم میں |
اپنی جاں خدا کے حوالے کرتا ہے |
تم کیا جانو جب ایک نوجواں مسافر کی لاش |
اس کی بے خبر ماں کے حضور لائی جائے |
اور وہ پتھرائی آنکھوں سے |
اپنے بیٹے کے لاشے کو تکے جائے |
مگر کچھ کر نہ سکے |
تم کیا جانو جب غربت سے تنگ آ کر |
باپ اپنے بچوں کی بولی لگائے |
اور لینے والا کوئی نہ ہو |
تم کیا جانو جب ایک نوجواں لڑکی کی لاش |
بند کمرے میں پنکھے سے لٹکی ہوئی ملے |
اور ساتھ خط میں لکھا ہوا ملے |
بابا کی عزت بھی عزیز تر تھی |
مگر تیری محبت بھی فرسانِ روح تھی |
بس ایک یہی حل تھا میرے پاس سب معاف کر دینا مجھے |
جاناں |
یہ سارے دکھ اپنی جگہ کرب ناک ہیں مگر |
تیری فرقت کا دکھ ایک کربِ مسلسل کی طرح |
میرے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا |
سو معاف کر دینا مجھے |
خدا حافظ |
معلومات