ڈال پہ پھر سے پھول کھلے ہیں
بھنورے کلیاں آن ملے ہیں
تیرا وعدہ آنے کا تھا
میرا ساتھ نبھانے کا تھا
اپنا وعدہ پورا کر دو
آؤ میرا جیون بھر دو
ساون رت بھی آنے کو ہے
مست گھٹابھی چھانے کو ہے
کوئل شور مچانے کو ہے
میٹھے گیت سنانے کو ہے
اپنی اب تو کوئی خبر دو
آؤ میرا جیون بھر دو
قاصد ان سے کہنا جاکر
حالت میری دیکھے آ کر
کب تک جینا مجھ کو ایسے
مردہ دل ہو اندر جیسے
قاصد بھیجو نامہ بر د و
آؤ میرا جیون بھر دو
آہیں بھر بھر رینا بیتے
تھک گئی یارا جیتے جیتے
روؤں بلکوں سسکوں چیخوں
ہر دم تیرا رستہ دیکھوں
آہ کو میری کچھ تو اثر دو
آؤ میرا جیون بھر دو

0
92