| پاس دریا کے سمندر نہیں آنے والا |
| اب فقیروں میں قلندر نہیں آنے والا |
| جنگ لازم ہے تو بازو پہ یقیں رکھ ورنہ |
| تیری خاطر تو سکندر نہیں آنے والا |
| رب نے دی ہے تجھے دنیا کی امامت غافل |
| دوسرا کوئی پیمبر نہیں آنے والا |
| ہے اگر ذوق اجالوں کا تو خود محنت کر |
| ورنہ تو چاند زمیں پر نہیں آنے والا |
| تیرے اندازِ بیاں جیسا جہاں میں ساغر |
| کوئی اب اور سخن ور نہیں آنے والا |
معلومات