وہ جو عشق تھا وہ فتور تھا
میری خواہشوں کا قصورتھا
میرے ساتھ تھی میری سادگی
تیرے ساتھ تیرا غرور تھا
میری پیاس جتنا شدید تھی
تیرا لمس اتنا ہی دور تھا
وہ جو ذکر تھا میری بزم میں
وہ تمہارا میرے حضور تھا
میری چاہ مثلِ کلیم تھی
تیرا ہجر بھی کوہِ طور تھا
حزنِ عاشقی تیرا شکریہ
تیرے درد میں بھی سرور تھا
اس کو مل گئیں اتنی منزلیں
جس کو جس قدر ہی شعور تھا
ہنس کے سہ گیا میں ترے ستم
میرا دل بڑا ہی صبور تھا
جانتے ہو ساغر جو مر گیا
ہاں وہی جو زخموں سے چور تھا

64