بات چھوٹی سی تھی کیا سے کیا ہوگئی
بد گمانی بڑھی اور بلا ہو گئی
بے رخی ان کے چہرے پہ جچتی نہیں
اب وہی ان کی قاتل ادا ہو گئی
ایک مدت سے چاہا تھا ہم نے تجھے
چند لمحوں میں چاہت فنا ہو گئی
رات بھر سو نہ پائے تھے جس کےلئے
وہ عبادت بھی ہم سے قضا ہو گئی
ان کو تکتے ہو کیوں اس قدر غور سے ؟
ان کو تکنا ہماری خطا ہو گئی !
ہیں عجب فیصلے میری تقدیر کے
جو بھی مانگی دعا بد دعا ہو گئی
یوں جلا ہے بدن عشق کی آگ میں
راکھ نکلی جو دل سے دیا ہو گئی
وہ جفا کر کے ساغر ہوئے سر خرو
اور بدنام میری وفا ہو گئی

0
189