| دل فسردہ ہے مگر آنکھیں نم نہیں |
| یہ وہ غم ہے جو قیامت سے کم نہیں |
| ہجر سے جلتا ہے سینہ دم گھٹتا ہے |
| کون کہتا ہے ہمیں کوئی غم نہیں |
| رات ناگن کی طرح ڈستی ہے مجھے |
| دن کسی مقتل کے منظر سے کم نہیں |
| تم چلا کے دیکھتے ہو خنجر کو کیوں |
| تم یہ دیکھو نبضِ بسمل میں دم نہیں |
| آ غمِ دوراں تجھے ہم دیکھیں ذرا |
| آج یا تو ، تو نہیں یا پھر ہم نہیں |
| بچنا دل میرے تو الفت کے جال سے |
| عشق ہے یہ زلف کے پیچ و خم نہیں |
| کچھ نہیں اس میں تری صورت کے سوا |
| دل ہے ساغر کا کوئی جامِ جم نہیں |
معلومات