آنکھیں سرخ چہرے کا رنگ لال رہتا ہے
جب سے میرے دل میں تیرا خیال رہتا ہے
دے گیا وہ اپنے حصے کے دکھ سبھی مجھ کو
سنتے ہیں کہ اب وہ ہر دم نہال رہتا ہے
بجلیوں کے دَل میں ہم بوریا نشینوں کو
آشیاں کے جلنے کا احتمال رہتا ہے
جب سے چور مسند پر ہیں مرے وطن میں اب
حق سبھی کسانوں کا پائمال رہتا ہے
پی کے جب بھی نکلا ہے جامِ مست مسجد سے
دیر تک رُخِ ساغر پُر جلال رہتا ہے

0
86