ہم تری گلی میں بے سر و ساماں پھرتے ہیں |
خاک بالوں میں ہے چاکِ گریباں پھرتے ہیں |
ایک تو نہیں اور اک لوگ اجنبی سارے |
دیکھ تو سہی ہم کتنے پریشاں پھرتے ہیں |
جانے کس نے توڑا ہے اب کے بار دل ان کا |
جانے کس لئے وہ اکثر پشیماں پھرتے ہیں |
ہم وہ لوگ جو صدیوں سے حریفِ سورج تھے |
اب تو اپنے ہی سائے سے ہراساں پھرتے ہیں |
جانے کون چپکے سے مار دے ہمیں ساغر |
اس کی بستی میں تو سارے مسلماں پھرتے ہیں |
معلومات